Maktaba Wahhabi

270 - 868
جواب:اکثر اہل علم کے نزدیک نماز عید فرض کفایہ ہے،اگر کچھ لوگ اس سے پیچھے رہ جائیں تو جائز ہے،مگر اس میں حاضر ہونا اور مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر عید پڑھنا سنت مؤکدہ ہے،کسی شرعی عذر کے بغیر اس کا ترک کرنا انتہائی نامناسب ہے۔ اس کے مقابل کچھ اہل علم کے نزدیک نماز عید فرض عین ہے جیسے کہ نماز جمعہ میں کسی مکلف آزاد اور مقیم آدمی کے لیے اس سے پیچھے رہنا جائز نہیں ہے۔اور یہی قول باعتبار دلائل واضح اور حق و صواب کے قریب تر ہے۔خواتین کے لیے بھی اس اجتماع میں حاضر ہونا مسنون ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ شرعی آداب کے ساتھ باپردہ ہو کر آئیں اور خوشبو اور زیب و زینت سے احتراز کرتی ہوئی آئیں۔صحیحین میں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: "ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہم نوجوان دوشیزاؤں اور ایام والیوں کو بھی نکال لے چلیں کہ وہ اس خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں،البتہ ایام والیاں جائے نماز سے الگ رہیں۔" [1] کچھ روایات میں یہ بھی ہے کہ: "ایک خاتون بول اٹھی:اے اللہ کے رسول!ہم میں سے بعض کے پاس بڑی چادر نہیں ہوتی جس میں وہ باہر جا سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:چاہیے کہ اس کی بہن اس کو اپنی چادر میں لپیٹ لے۔"[2] بلاشبہ ان احادیث میں تاکید ہے کہ عورتیں بھی عید کے لیے عیدگاہ میں نکلیں اور اس خیر اور مسلمانوں کی دعائے عام میں شریک ہوں۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:ہمارے آج کے دور میں عورتوں کے عید کے لیے نکلنے کا کیا حکم ہے،جبکہ فتنے بہت بڑھ گئے ہیں اور کچھ عورتیں خوب بناؤ سنگھار اور خوشبوئیں لگا کر نکلتی ہیں۔اگر ہم اس کی اجازت دیں تو آپ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان کے متعلق کیا کہیں گے جس میں وہ کہتی ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے یہ چلن ملاحظہ فرما لیتے تو وہ انہیں روک دیتے؟ جواب:جہاں تک ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ عورتوں کوعیدگاہ کی طرف جانے کا کہا جائے تاکہ وہ اس خیر اور مسلمانوں کی نماز اور دعائے خیر میں شریک ہو سکیں،لیکن ان پر واجب ہے کہ انتہائی سادہ انداز میں بغیر زیب و زینت اور خوشبو وغیرہ کے نکلیں۔انہیں یہ دونوں کام کرنے چاہییں کہ عید کے لیے بھی نکلیں اور فتنے سے بھی
Flag Counter