Maktaba Wahhabi

268 - 868
سوال:نفاس والی عورت کے لیے نماز روزے کا کیا حکم ہے؟ جواب:نفاس والی عورت کے لیے روزہ رکھنا،نماز پڑھنا یا بیت اللہ کا طواف کرنا حرام ہے جیسے کہ حیض والی کے لیے ہے۔لیکن اسے واجبی روزوں کی قضا دینی ہو گی جو اس سے نفاس کے دنوں میں چھوٹ گئے ہوں،جس طرح کہ حائضہ کا مسئلہ ہے۔(صالح فوزان) سوال:استحاضہ والی کے لیے نمازوں کا کیا حکم ہے،کیا اسے وضو کرنا چاہیے یا غسل؟ اور کیا وضو نماز کا وقت شروع ہونے پر کرے یا اس سے پہلے بھی کر سکتی ہے؟ جواب:سوال کے پہلے حصے کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے (یعنی وہ نمازوں کی پابند ہے) اور دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک نماز کا وقت شروع ہو جانا شرط ہے،جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نماز کا وقت شروع ہونا شرط نہیں کہتے ہیں۔کیونکہ اس شرط کی کوئی دلیل نہیں ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ (المائدہ:5؍6) "اے ایمان والو!جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو ۔۔" اور یہ کھڑا ہونا نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے،تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عمل بعض اوقات وقت شروع ہونے سے پہلے بھی ہو سکتا ہے اور بعض اوقات وقت شروع ہونے کے بعد،مثلا اگر ایک عورت عشاء کی نماز مسجد میں ادا کرنا چاہتی ہے،اور اس نے مغرب کی نماز گھر میں پڑھی ہے،پھر اسے استحاضہ آ گیا،تو اس نے گھر ہی میں عشاء کے لیے وضو کیا اور عشاء کی اذان سے پہلے ہی مسجد کی طرف چل دی تاکہ یہ نماز مسجد میں ادا کر سکے تو اس کا یہ قیام عشاء ہی کے لیے ہے،الغرض وقت کا شروع ہونا شرط نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:ایک خاتون جو حمل سے ہے اور نویں مہینے میں اسے سلسل البول کا عارضہ ہو گیا ہے کہ ہر وقت پیشاب کے قطرے آتے رہتے ہیں،اور اس نے اس آخری مہینے میں نماز چھوڑ دی،تو کیا اس کا یہ عمل ترک صلاۃ (نماز چھوڑنے) کے زمرے میں آتا ہے؟ اور اس پر کیا لازم ہے؟ جواب:یہ اور اس قسم کی خواتین کو نماز چھوڑ دینا جائز نہیں ہے بلکہ واجب ہے کہ اس حال میں بھی نماز پڑھتی رہیں۔البتہ یہ ہے کہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کر لیا کریں جیسے کہ مستحاضہ کا حکم ہے اور حتی الامکان احتیاط اور بچاؤ اختیار کریں مثلا اپنے جسم پر روئی وغیرہ رکھا کریں اور اپنے وقت پر نماز ادا کریں۔اور نماز کے اس وقت میں اس کے لیے جائز ہے کہ جس قدر نفل پڑھنا چاہے پڑھ سکتی ہے۔اور یہ بھی جائز ہے کہ دو دو نمازیں جمع کر لیا کرے،مثلا ظہر و عصر اور مغرب و عشاء،جیسے کہ مستحاضہ کا معاملہ ہوتا ہے۔اللہ کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن:64؍16)
Flag Counter