Maktaba Wahhabi

226 - 868
اقامت ایسے اعمال ہیں جو مردوں کے لیے خاص ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی صحیح احادیث سے ایسے ہی ثابت ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:کیا عورت اپنی نماز کے لیے اقامت کہہ سکتی ہے ۔۔اور اس کی کیا دلیل ہے؟ جواب:ہاں عورتیں اقامت کہہ سکتی ہیں۔اگرچہ جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ عورت کے لیے اذان یا اقامت کہنا جائز نہیں ہے۔اور ان حضرات کی دلیل وہ حدیث ہے جو سنن بیہقی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ " لا اذان ولا اقامة على النساء " [1] "یعنی عورتوں کے لیے اذان اور اقامت نہیں ہے۔" لیکن امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ یہ روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف اور ان کا اپنا قول ہے،اور ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح کہا ہے۔اسی طرح ایک اور روایت بھی ذکر کی گئی ہے جو انتہائی ضعیف ہے کہ: النساء عين و عورات فاستروا عينهن بالسكوت و عوراتهن بالبيوت[2] "عورتوں میں ایک طرح کا جھول ہوتا ہے اور یہ چھپانے کے لائق ہیں۔سو ان کے جھول کو خاموشی کے ذریعے سے اور ان کی شخصیات کو گھروں کے ذریعے سے چھپاؤ۔" مگر اس روایت کی سند انتہائی ضعیف ہے۔ رہی دلیل اس بات کی کہ عورتوں کے لیے اقامت جائز ہے،وہ حدیث ہے جسے 'حديث مسئ الصلاة ' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو بخاری و مسلم میں روایت کی گئی ہے اور ابوداؤد میں بھی ہے،اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نمازی سے فرمایا تھا کہ: "فَتَوَضَّأْ كَمَا أَمَرَكَ اللّٰهُ،ثُمَّ تَشَهَّدْ،وَأَقِمْ "[3] "پھر وضو کر جیسے کہ تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے،پھر دعا پڑھ اور اقامت کہہ۔" اور عورتیں بھی مردوں ہی کی طرح اور ان ہی کی جنس سے ہیں اور شرعی مسائل مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے بنیادی طور پر ایک سے ہیں سوائے اس کے جہاں ان میں کسی تفریق کا بیان آ جائے،اور اس مسئلہ میں
Flag Counter