Maktaba Wahhabi

159 - 868
جواب:سبیلین (قبل و دبر) کے علاوہ جسم انسانی سے اگر کچھ خارج ہو تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے سوائے اس کے کہ پیشاب ہو یا پاخانہ۔اس میں اصل یہ ہے کہ کوئی چیز وضو کی ناقض نہیں ہے (سوائے اس کے جو دلیل شرعی سے ثابت ہو) تو جو آدمی اصل کے خلاف کا دعویٰ کرتا ہے اسے چاہیے کہ دلیل بھی پیش کرے۔اور انسان کا پاک ہونا دلیل شرعی سے ثابت ہے۔اور جو چیز دلیل شرعی سے ثابت ہو،اسے دلیل شرعی ہی سے رد کیا جا سکتا ہے۔اور ہم کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے ثابت شدہ امور کے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں،کیونکہ ہم اللہ عزوجل کی شریعت کے پابند ہیں اور اس کے تحت عبادت کرتے ہیں،اپنی من مرضی سے کوئی عبادت نہیں کر سکتے۔ہمیں کسی طرح روا نہیں کہ اللہ کے بندوں کو کسی ایسی طہارت کا پابند بنائیں جو لازم نہیں ہے،اور جو ان کی اصل طہارت واجبہ ہے اسے زائل کر دیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قے کی اور پھر وضو کیا۔"[1]تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ اس حدیث کو بہت سے اہل علم نے ضعیف کہا ہے،اور یہ بھی ہے کہ یہ محض ایک فعل ہے۔اور ایک فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ہے کیونکہ یہ امر (حکم دئیے جانے) سے خالی ہے نیز یہ دوسری حدیث کے برخلاف بھی ہے،اگرچہ وہ بھی ضعیف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی اور وضو نہیں کیا۔[2] تو یہ دلیل ہے کہ قے آ جانے پر وضو کرنا واجب نہیں ہے۔ الغرض یہی قول راجح ہے کہ بقیہ بدن سے نکلنے والی کسی شے سے خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ،وضو نہیں ٹوٹتا ہے،قے ہو یا لعاب،خون ہو یا زخموں کی پیپ وغیرہ،الا یہ کہ وہ پیشاب یا پاخانہ ہو مثلا عمل جراحی سے کوئی ایسی جگہ کھول دی گئی ہو جہاں سے پیشاب پاخانہ خارج ہوتا ہو تو ان کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:کیا بےہوشی طاری ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ جواب:ہاں بے ہوشی طاری ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔کیونکہ بے ہوشی نیند سے زیادہ قوی ہوتی ہے اور گہری نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اس طرح کہ اسے خبر ہی نہ ہو کہ اس سے کچھ (ہوا وغیرہ) نکلی ہے یا نہیں۔ہاں اگر نیند ہلکی ہو تو اسے اپنے متعلق ہوش اور خبر رہتی ہے لہذا یہ وضو کے لیے ناقض بھی نہیں ہے۔خواہ لیٹ کر سوئے یا بیٹھ کر،سہارا لے کر سوئے یا بغیر سہارے کے اور بے ہوشی چونکہ نیند سے قوی تر ہوتی ہے،تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے سو واجب ہے کہ وضو کرے۔(محمد بن صالح عثیمین)
Flag Counter