Maktaba Wahhabi

77 - 326
(۳) افراد کے متعلق اسلام کی رواداری کی کیا حدود ہی؟ جو شخص میرے ذاتی حقوق کے بارے میں زیادتی کرے اسکا کیا حکم ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے حق میں زیادتی کرے اس کا کیا حکم ہے؟ (۴) عیسائیوں کے کیا حقوق ہی؟ اور ان کا صحیح مقام کیا ہے۔ معاہدہ،حربی یا کیا؟ (۵) تفصیل سے ارشاد فرمائیں کہ عیسائی پڑوسیوں کے کیا حقوق ہی؟ (۶) اس کے بعد میں ان کے ساتھ کیسا سلوک کروں؟ اگر وہ عورت تحفے وغیرہ دے کر میری والدہ کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنا چاہے تومجھے کیا کرناچاہئے۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: جب اس عیسائی عورت کایہ حال ہے تو جو آپ نے بیان کیا ہے تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ اسے اپنے ہاں آنے سے منع کریں اور اس سے میل جول نہ رکھیں تاکہ فتنوں سے محفوظ رہیں اور شروفساد کا درواز ہ بند رہے۔ کیونکہ جس قسم کی باتیں وہ کرتی ہے اس میں اسلام پر تنقید اور باطل کی دعوت ہے۔ اس کی ملاقاتیں شبہ سے پاک نہیں، لہٰذا اس سے بچ کر رہنے میں سلامتی ہے۔ اس وقت ان کی جوسرگرمیاں اور ظاہری قوت ہے اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کی یقیناً مدد فرمائے گا اور ان لوگوں کی قوت ختم ہوکر رہے گی۔ انشاء اللہ۔ مومن کو اللہ کا کام کرتے ہوئے کسی کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا۔ آپ نے بہت اچھا کام کیا کہ اس نصرانی عورت سے بحث کی اور اسے انجیلوں میں تعارض‘ اس کے عقیدے کی خرابی اور تناقص سے باخبر کیی اور اس کے شر سے بچنے کے لئے اسے گھر سے نکال دا۔ اگرچہ وہ آپ کی پڑوسن ہے لیکن ہمسائے کے ساتھ آداب کی رعایت اوراس کے احترام اور دیگر حقوق کا لحاظ اسی وقت تک ہوتا ہے جب تک وہ اپنی حد سے آگے نہ بڑھے اور اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی نہ کرے اور اس سے فتنہ اور گمراہی کا اندیشہ نہ ہو اور اس سے ایسا رویہ اختیار کیا جائے جس سے وہ اپنے شر سے باز آجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا اِِلَیْہِمْ اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِین٭ اِِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنْ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوْا عَلٰی اِِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الظَّالِمُوْنَ ﴾ ’’جن لوگو ں نے تم سے دین کی بنیاد پر جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھر وں سے نکالا، اللہ تعالیٰ تمہیں ان کیساتھ نیکی اور انصاف (کا سلوک) کرنے سے نہیں روکتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہو ں نے تم سے دین کی بنیاد پر جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر (نکالنے والوں سے) تعاون کیا۔ جو ان سے دوستی کریں گے وہی (لوگ) ظالم ہیں۔‘‘ نیز ارشاد ہے: ﴿وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ﴾ (العنکبوت۲۹؍۴۶) ’’اہل کتاب سے صرف بہترین اسلوب سے ہی بحث کرو سوائے ن کے جو ان میں سے ظالم ہیں۔‘‘ لہٰذا جو شخص اچھا رویہ رکھے گا اس سے اچھا سلوک کیا جائے گا اور جو ظلم وزیادتی کا ارتکاب کرے گا اس سے وہی سلوک کیا جائے گا جس سے وہ ظلم زیادتی سے باز آجائے اور فتنہ ختم ہوجائے اور دن میں فتنہ ڈالنا تو قتل سے بڑا جرم ہے۔ اللہ
Flag Counter