Maktaba Wahhabi

110 - 222
نزدیک بے معنی ہے،اشرف علی صاحب کے اس ترجمہ سے رب کے عرش پر ہونے کی صاف طور پرنفی ہوجاتی ہے،اور محمودالحسن صاحب کا ترجمہ قرآن کے الفاظ کے موافق ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر مستوی ہے،روحیں اسی کی طرف لوٹائی جاتی ہیں۔ یہ آیت ارواح کے مخلوق ہونے کی واضح دلیل ہے،یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ نیک روحیں جنت میں ہیں ان قبروں میں پڑے ہوئے جسموں میں روحیں نہیں ہیں،لہذا انبیاء و اولیاء و شہداء کو انہی جسموں کے ساتھ انہی قبروں میں زندہ ماننا اہل بدعت کا عقیدہ ہے اہل سنّت کا نہیں،شبیر احمد عثمانی کی مذکورہ بحث سے یہ بات بھی صاف عیاں ہے کہ وہ پوری کائنات کی ایک روح مانتے ہیں اس میں صرف روح والی مخلوق کی تخصیص نہیں ہے انہوں نے رو ح کو رب تعالیٰ کا حکم اور امر کہا ہے جو تمام مخلوق میں یکساں طور پر جاری و ساری ہے،اس معنی کے لحاظ سے جو روح جانوروں میں ہے وہی روح انسانوں میں ہے اس سے جانوروں میں بندر،سور،کتوں میں موجود روح اور انبیاء اولیاء کی ارواح کے مابین فرق مٹ جاتا ہے۔(العیاذ باللّٰه تعالی)صوفیاء تمام کائنات میں موجود روح کو روح اعظم کہتے ہیں،جو ان کے نزدیک رب تعالیٰ کی تجلی ہے جو اس سے جدا نہیں اس سے متحدومتصل ہے۔صوفیاء اس عقیدہ کی بناء پر دنیا سے مرجانے والے بزرگوں پر وفات کا لفظ استعمال نہیں کرتے بلکہ وصال کا لفظ استعمال کرتے ہیں،جو مخلوق کی ارواح کے خالق کے ساتھ اتصال و اتحاد کو ظاہر کرتا ہے۔صوفی زکریا صاحب تبلیغی نصاب و فضائل اعمال میں بزرگوں کی وفات پر یہی لفظ
Flag Counter