وجہ ذکر کی ہے ان کا یہ قول ہے کہ سالک یعنی شریعت پر عمل کرنے والا مسلمان یہ نظام حکومت اس لئے نہیں چلا سکتا کہ کبھی بعض مصلحتوں کی وجہ سے کافر فوج کو مسلمانوں پر فتح دلانا ضروری ہوتا ہے اور عقل و شعور رکھنے والا مسلمان یہ کام سر انجام نہیں دے سکتا اس وضاحت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کا نظام مملکت ایسی ہستیوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو شریعت اسلامیہ سے مکمل طور پر آزاد ہوتے ہیں کفر اور اسلام ان کے ہاں برابر ہوتا ہے صوفیاء کا مذہب چونکہ وحدت ادیان بھی ہے اس لئے ان کے ہاں کفر و ایمان کی تفریق بے معنی ہے گذشتہ حکایت بھی اس سلسلے کی کڑی ہے اور اس کی مزید وضاحت ملاحظہ ہو۔
ولایت کے شئون
مولانا اشرف علی صاحب کی کتاب شریعت و طریقت میں سے مذکورہ عنوان کے تحت یہ عبارت پیش خدمت ہے۔
ولایت چونکہ نبوت سے ماخوذ ہے اور نبوت میں مختلف شانیں ہیں۔اس لئے کسی ولی کو علی قدم عیسیٰ اور کسی کو علی قدم موسیٰٰ حسب اختلاف شئون کہا جاتا ہے اور یہ سب شانیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شئون کے القاب ہیں۔آپ ان سب شئون مختلفہ کے جامع ہیں پس جس کو آپ کی شان ملقب بہ شان موسیٰٰ سے فیض ہوا اس کو علی قدم موسیٰٰ اور جس کو آپ کی شان عیسوی سے فیض حاصل ہوا اس کو علی شان قدم عیسیٰٰ وغیرہ ہماسے تعبیر کیاجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(فاتبعوا ملۃ ابراہیم حنیفا)سو تم ملت ابراہیم کی اتباع کرو جس میں ذراکجی نہیں
|