Maktaba Wahhabi

112 - 222
کائنات وجود میں آگئی تو درخت کے بیج کی طرح رب تعالیٰ کی ذات اس کائنات میں چھپ گئی(العیاذ باللہ تعالی)یہ ہے وحدۃ الوجود کی آسان مثال اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت مخلوق کی ذات میں رب کی ذات مخفی و پوشیدہ ہے اس مخلوق کے باہر رب تعالیٰ کی ذات کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ مخلوق ظاہر میں مخلوق ہے اور باطن میں خالق اور رب ہے،اس طرح انسان رب بھی ہے اور بندہ بھی،اسی لئے ابن عربی نے فصوص الحکم میں فرعون کو حقیقت حال کا عارف اور مسلمان لکھا ہے کیونکہ جب ہر انسان رب ہے تو فرعون بادشاہ ہونے کی وجہ سے بڑا رب ہوا،ابن عربی نے کہا ہے کہ اس نے(انا ربکم الاعلٰی)صحیح کہا تھا اور جادوگروں نے بھی فرعون کے رب ہونے کا یقین کرلیا تھا اس لئے انھوں نے فرعون کے آگے سرتسلیم خم کردیا تھا۔(فصو ص الحکم فص موسوی،اردو ص ۳۹۵ طبع دھلی)دیوبندی علماء و اکابرین وحدۃ الوجود پر یقین و ایمان رکھتے ہیں صوفی اشرف علی صاحب تھانوی کی کتاب امدادالمشتاق ص ۴۱ میں ہے:ایک دن ایک شخص نے مسئلہ و حدت الوجود کا سوال کیا فرمایا یہ مسئلہ حق و صحیح واقع کے مطابق ہے اس مسئلہ میں کچھ شک و شبہ نہیں معتقد علیہ تمام مشائخ کاہے۔ جبرئیل علیہ السلام کون تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود جبرئیل علیہ السلام تھے وحدت الوجود کے عقیدے میں چونکہ دوئی کا کوئی وجود نہیں اس دنیا میں موجود صرف ایک ذات ہے اس لئے اشرف علی صاحب تھانوی نے فرمایا:جبرئیل آئینہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس آئینہ میں حضور نے اپنے آپ کو دیکھا تو آپ خود اپنے آپ سے مستفید ہوئے آپ
Flag Counter