Maktaba Wahhabi

81 - 222
ولکنہ اخلد الی الارض واتبع ھواہ فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلہث اوتترکہ یلہث ذلک مثل القوم الذین کذبواباٰیتنا﴾(الاعراف:۱۷۵۔۱۷۶)اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیے کہ اس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے بالکل ہی نکل گیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں داخل ہوگیا۔اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے لیکن وہ دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا تو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تو اس پر حملہ کرے تب بھی ہانپے یا اس کو چھوڑدے تب بھی ہانپے یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔۔ اس آیت سے معلوم ہوا دنیا کا کتا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے اور اپنی خواہش نفسانی کی غلامی کرتا ہے لہذا کسی مسلمان و مومن کو لائق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو سور یا کتا کہے اور اگر کہتا ہے تو پھر رب تعالیٰ اگر اس کو اسی مخلوق سے اٹھا دے تو اس کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے اور زکریا صاحب کا قول گذرا ہے کعبہ بعض بزرگوں کی زیارت کو خود جاتا ہے اس کی تائید میں یہ پڑھیے۔ بعض اولیاء ایسے ہیں کہ کعبہ خود ان کی زیارت کو جاتا ہے۔ یہاں پر فرمایا کہ حضرت خواجہ ابراہیم بن ادھم نے حج کے ارادے سے خانہ کعبہ کا راستہ اختیار فرمایا اور فرمایا ہر شخص پیروں کے بل جاتا ہے مجھے یہ راستہ سر کے بل طے کرنا چاہئیے۔چنانچہ شکرانے کے طور پر ایک ایک قدم پر دوگانہ نفل پڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ چودہ برس کی
Flag Counter