Maktaba Wahhabi

78 - 222
دیکھی کہ آپ کی سور کی سی شکل نظر آتی ہے ان بزرگ نے فرمایا کہ تم چلّہ لگاؤ پھر جب آئے تو کتے کی سی شکل نظر آئی اسی طرح بلی پھر انسان کی سی نظر آئی تب ان بزرگ نے فرمایا کہ یہ خرابی تمہارے اندر تھی میں تو آئینہ ہوں جیسی تمہاری حالت تھی ویسی میری اندر نظر آئی(مکتوبات وملفوظات اشرفیہ ص ۲۹۹)۔اس حکایت سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ صوفی تبلیغی اس لئے چلّے لگاتے پھر تے ہیں کہ کہیں ان کی شکلیں اس پیر جیسی نہ ہو جائیں یا بقول پیر،مرید جیسی نہ ہوں۔اور اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ کم از کم تین چلّے لگا نا ضروری ہیں تین چلو ں کے بعد ہی صوفی کا چہرہ انسانوں والا ہوسکتا ہے اس سے پہلے نہیں۔اس حکایت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ صوفیاء کے نزدیک جس شخص نے چلّہ نہیں کھینچا انسان نہیں بلکہ حیوان ہے اس لئے صوفی تبلیغی کے ہاں اپنے علاوہ کسی اور کی کوئی اہمیت ہی نہیں اس کی حیثیت ان کے ہاں انسانوں جیسی نہیں حیوانوں جیسی ہے اس بات کی مزیدتائید اس واقعہ سے ہوتی ہے۔ شاہ عبدالعزیز کی پگڑی شاہ عبدالعزیز صاحب جامع مسجد میں آتے تھے تو عمامہ آنکھوں پر جھکا لیا کرتے تھے اور اد ھر ادھر نہیں دیکھا کرتے تھے ایک شخص نے اس کا سبب پوچھا شاہ صاحب نے اپنا عمامہ اس کے سر پر رکھ دیا،دیکھا کہ تمام جامع مسجد میں بجز دوچار آدمیوں کے سب گدھے،کتے،بھیڑ یئے،بندر پھر رہے ہیں فرمایا اسی وجہ سے میں اس صورت میں آتا ہوں مجھ کو سب کتے بندر وغیرہ نظر آتے ہیں اورطبیعت پریشان ہوتی ہے(قصص الاکابر:مؤلفہ اشرف علی
Flag Counter