Maktaba Wahhabi

34 - 222
ہے۔ کفار کے ملک کی طرف قرآن لے جانے کی ممانعت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’باب کراہیۃ السفر بالمصاحف الی ارض العدو‘ یعنی کافر ملک جس کی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی ہو اس کی طرف قرآن لیجانے کی ممانعت ہے ’’عن عبداللّٰه بن عمر رضی اللّٰه عنہ ان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نھی أن یسافر بالقران الی ا رض العدو‘‘یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کافر ملک کی طرف قرآن کریم لے جانے سے منع فرمایا ہے۔آپ نے یہ حکم اس لئے دیا تا کہ دشمن قرآن کریم کی بے حرمتی نہ کرسکیں(فتح الباری کتاب الجھاد باب ۱۲۹ حدیث ۲۹۹۰)یہ حدیث صحیح مسلم کتاب الامارۃ(باب ۲۴ حدیث ۱۸۶۹)میں بھی ہے اس کے آخر میں ہے ’’مخافۃ ان ینالہ العدو‘‘ یعنی تاکہ دشمن قرآن کریم کی بے حرمتی نہ کریں۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ و امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے اگر جہاد میں جانے والوں کا لشکر قلیل ہو جس پر دشمنوں کے غالب ہونے کا امکان ہو تو قرآن کریم کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور اگر مسلمانوں کا لشکر بڑا ہوتو قرآن اپنے ساتھ لیجانے میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ یادرہے یہ اجازت اسلامی لشکر کے لئے ہے جو جہاد کے لئے دشمن ممالک میں جائے۔امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس معاملہ میں صحیح قول یہی ہے اور امام مالک رحمہ اللہ نے مطلقاً قرآن لے جانا نا جائز کہا ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ابن المنذر رحمہ اللہ نے مطلقاً جواز کا قول نقل کیا ہے مگر وہ ضعیف ہے ان کا صحیح قول وہی ہے جو پہلے گزرا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ کافر ملکوں میں قرآن کریم عام
Flag Counter