Maktaba Wahhabi

90 - 264
المحدثین المبتدعین‘کا الزام لگایا۔(أیضاً: ص۶۳۵)اسی طرح نفس زکیہ رحمہ اللہ نے عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور کے خلاف خروج سے پہلے جو اسے خط لکھاتھا‘ اس خط کی ابتداء ہی قرآن کی آیت ﴿اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَۃً مِّنْہُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئَ ہُمْ وَیَسْتَحْیٖ نِسَآئَ ہُمْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِیْنَ وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ﴾(القصص: ۴۔۶)سے کی تھی۔(أیضاً:۴؍۴۳۱) نفس زکیہ رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ میں ابو جعفر المنصور کو طاغوت اور اللہ کا دشمن قرار دیااوراسے فرعون سے تشبیہہ دی اور اس پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا لیا ہے۔(ایضاً: ص۴۲۵) اسی وجہ سے علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس میں جو خروج ہوئے ‘ اس کی وجہ اس وقت کے حکمرانوں کا صرف فسق و فجور نہیں تھا بلکہ ان حکمرانوں کی طرف سے شریعت اسلامیہ کو تبدیل کردینا‘ حرام کو حلال بنانا اور کفر کا اظہار کرنا تھا۔(النووی أبو زکریا یحی بن شرف، المنھاج شرح صحح مسلم،۱۲؍۲۲۹، دار إحیاء التراث العربی، بیروت)یہ تو بنو امیہ کے زمانے کے قصے ہیں ۔ بنوعباس میں سے ابو العباس سفاح نے بنوامیہ کے خاندان کو چن چن کر قتل کروایا بلکہ ان کی قبروں سے ان کی ہڈیاں نکال کر جلائی گئیں ۔ فاطمی خلفاء کن باطنی عقائد کے حامل تھے وہ تاریخ کے کسی طالب علم سے مخفی نہیں ہے۔ اندلس کے مسلمان امراء معاصر عیسائی سلطنتوں کی مدد سے مدتوں اپنے مسلمان بھائیوں کی گردنیں اڑاتے رہے۔بعض عثمانی سلاطین نے اپنی خلافت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے ہی بھائیوں کو قتل کروایا۔ برصغیر میں مغل حکومت کی دینداری اور خاص طور دین اکبری کے بارے تو مذہب کا ایک ادنیٰ سا طالب بھی وافر معلومات رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بنوامیہ کے آخری دور میں ہی حکمرانوں میں اس قدر اخلاقی و دینی بگاڑ آچکاتھا کہ اس وقت سے لے کر عثمانی خلافت تک بادشاہ کا حکم وہی تقدس رکھتا تھا جو آج کل کی مسلمان ریاستوں میں آئین کو حاصل ہے۔ اگرچہ کہنے کو توبنوعباس، سلطنت عثمانیہ اور مغل حکومتوں کے دور میں حنفی فقہ اور اندلس کی سلطنت میں مالکی یا ظاہری فقہ نافذرہی لیکن اصل فیصلہ کن حیثیت ان فقہوں کی بجائے بادشاہ کے کلام کو تھی اور جب بادشاہ کسی کا خون حلال کرنا چاہتا تھا تو اس وقت اسے کوئی فقہی رائے، قاضی یا عدالت نہ روک سکتی تھی۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ ان ادوار میں اصل آئین بادشاہ کے الفاظ تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض خلفاء مثلاً فاطمی سلاطین کی شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے تکفیر بھی کی
Flag Counter