چند شبہات اور ان کے جوابات 1۔ تحریک طالبان پاکستان سے بہت سے گروہ نظریاتی اختلافات کی بنا پر علیحدہ ہو کر چھوٹے چھوٹے گروپس میں تقسیم ہو تے گئے۔حامد میر نے اپنے ایک کالم میں کوئی ستائیس کے قریب ایسے گروپس کا تعارف کروایا ہے۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو حکومت پاکستان کو کافر قرار دیتے ہیں اور حکومت کی معاونت کی وجہ سے افواج پاکستان‘ رینجرز اور پولیس پر بھی کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں لہٰذا یہ حضرات سکیورٹی فورسز پر ہر جگہ خود کش حملوں کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ اس منہج سے ہم امت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کی بجائے بڑھا رہے ہیں ۔ مظلوم طبقے کی ٹینشن ‘ فرسٹریشن اور ڈیپریشن اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب ان کی ایک تعداد کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کو بھی عراق بنانا چاہتے ہیں ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایسی باتیں مسلمان امت کو چولہے(حکومتی ظلم وستم) سے اٹھانے لیکن ساتھ ہی تنور(باہمی قتل و غارت) میں جھونکنے کے مترادف ہیں ۔شریعت ہمارے مسائل حل کرنے کے لیے آئی ہے نہ کہ پیدا کرنے کے لیے۔ اگر اس منہج کو اختیار کر لیا جائے تو شاید ایک مسئلہ حل ہو جائے لیکن اس سے جو آگے بیس مسائل پیدا ہوں گے‘ ان پر ہم بالکل بھی غورو فکر نہیں کرتے۔پاکستانی ریاست کو کمزور کرنے کا اصل فائدہ کس کو ہو گا؟امریکہ ‘ اسرائیل اور انڈیا کویا تحریک طالبان پاکستان کو؟ہم پہلے ہی اسلام دشمنوں سے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور باہمی جنگ و جدال سے اپنے ملک کو اورزیادہ کمزور کر لیں تو کس کا فائدہ کریں گے؟پاکستان کا بھی عراق جیسا حشر ہونے سے کیا امت مسلمہ کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ اسلامی تاریخ میں شاید ہی حجاج بن یوسف جیسے سفاک اور ظالم حکمران کی کوئی اور مثال موجود ہو جس نے صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن زبیرt کی خلافت کے خاتمے کے لیے مکہ کا محاصرہ کیا‘ ان کو شہید کروا کے سولی پر چڑھایا‘ بیت اللہ پر سنگ باری کروائی اور ہزاروں مسلمانوں کو صرف اپنے اور بنو امیہ کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے شہید کروایا۔اس شخص کے ظلم وستم سے تنگ آ کر جب دو اصحاب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے: |