((إن الناس ضیعوا وأنت ابن عمر وصاحب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فما یمنعک أن تخرج فقال یمنعنی أن اللّٰہ حرم دم أخی فقالا ألم یقل اللّٰہ ﴿وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ﴾ فقال قاتلنا حتی لم تکن فتنۃ وکان الدین للہ وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتی تکون فتنۃ و یکون الدین لغیر اللّٰہ )) (5) ’’لوگوں نے امانت کو ضائع کر دیا( یعنی حقدار کو امارت و خلافت عطا نہ کی ) اور آپ ابن عمرہیں ‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بھی ہیں تو پھر بھی آپ ان ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کیوں نہیں کرتے؟ تو حضرت عبد اللہ بن عمر t نے کہا: مجھے اللہ کا یہ حکم ان کے خلاف خروج سے روکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان بھائی کے خون کو حرام کیا ہے تو اس شخص نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا کہ ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے۔ تو حضرت عبد اللہ بن عمرt نے جواب دیا:ہم نے قتال کیا تھا یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو گیااور دین اللہ ہی کے لیے ہو گیا اور تم یہ چاہتے ہو کہ تم قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ [مسلمانوں میں باہمی قتل و غارت]پیدا ہو اور دین غیر اللہ کے لیے ہوجائے۔‘‘ صحیح بخاری ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمرt سے آکر کہاکہ آپ ہر سال حج و عمرہ تو کرتے ہیں لیکن اللہ کے رستے میں جہاد نہیں کرتے تو حضرت عبد اللہ بن عمر t نے کہا : ارکان اسلام پانچ ہی ہیں ۔ تو اس شخص نے کہا اللہ تعالیٰ نے تو یہ حکم دیا کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ اور اگر پھر ان میں کوئی ایک زیادتی کرے تو اس کے خلاف لڑو۔تو حضرت عبد اللہ بن عمرt نے اسے وہی جواب دیا جو اوپر مذکور ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر t نے بھی اسی اندیشے سے حکمرانوں سے قتال کو فتنہ قرار دیا تھا کہ اس سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے باہمی قتل و غارت بڑھنے کے یقینی امکانات موجود تھے۔ 2۔ ایک شبہ یہ بھی پیش کیاجاتا ہے کہ یا تو ہم دارالحرب میں ہیں یا دارالاسلام میں ۔اب پاکستان دارالاسلام تو ہے نہیں کیونکہ یہاں طاغوتی نظام قائم ہے لہٰذا دارالحرب |