Maktaba Wahhabi

107 - 264
معبود بحق إلا اللّٰہ ‘ہے۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ سلف کی اس تفسیر پر درج ذیل آیات اور احادیث شاہد ہیں : ارشاد باری تعالیٰ ہے:یہ اس وجہ سے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی حقیقی معبود ہے اور جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ معبودان باطلہ ہیں اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی عظیم اور بڑا ہے۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا تاکہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ اسی طرح ارشاد ہے: اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ اسی طرح ارشاد ہے: اور نہیں میں نے پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں ۔ اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے: مجھے یہ حکم دیا گیاہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ ’لا إلہ إلا اللّٰہ ‘کی گواہی دیں ۔‘‘ شیخ ربیع (11)اور شیخ ابراہیم الرحیلی(12)نے بھی تقریباًیہی موقف بیان کیا ہے۔ خلاصہ کلام اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ توحید حاکمیت کی اصطلاح سلف صالحین کے دور میں نہیں تھی اور یہ جدید دور کی اصطلاح ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس اصطلاح کا استعمال جائز ہے یاغیرصحیح یا بدعت؟ جیسا کہ یہ تینوں موقف سلفی علماء میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ بات درست ہے کہ نئی اصطلاح وضع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ اس کی ضرورت ہو۔ لیکن بغیر کسی وجہ و ضرورت کے نئی نئی اصطلاحات کا استعمال انتشار ذہنی کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذا جب توحید حاکمیت ‘ توحید اُلوہیت یا ربوبیت میں شامل ہے اور ان کی ایک فرع یا فرد ہے تو اسے علیحدہ بیان کرنے کی بجائے انہی دو اقسام کے ذیل میں بیان کرنا چاہیے جیسا کہ شیخ بن باز رحمہ اللہ کا موقف ہے۔ پس علیحدہ سے توحید حاکمیت کی اصطلاح کا استعمال غیر ضروری اور درست نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص مجرداسے بطور اصطلاح استعمال کر ے تواس پر بدعتی یا گمراہ ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا۔ شیخ عبد اللہ الغنیمان حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وجعلہ قسم رابعا لیس لہ وجہ‘ لأنہ داخل فی الأقسام الثلاثۃ‘ و التقسیم بلا مقتضی یکون زیادۃ کلام لا داعی لہ‘ والأمر سھل فیہ
Flag Counter