تھی۔۲۰۰۴ء کے شروع سے ہی مقامی طالبان اور سکیورٹی فورسز کے مابین گاہے بگاہے جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں ۔حکومت پاکستان کا یہ دعویٰ تھا کہ اس علاقے میں وہ غیر ملکی اور القاعدہ کے مجاہدین موجود ہیں جو حکومت پاکستان اور امریکہ کو مطلوب ہیں ۔شمالی وزیرستان کی صورت حال اس وقت زیادہ خراب ہو گئی جب مارچ ۲۰۰۶ء میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے صدر مقام’ میران شاہ‘ پر حملہ کر دیا اور اس حملے میں فضائیہ کا بھرپور استعمال کیا گیا۔فضائی حملوں کے نتیجے میں شہر تباہ ہو کر رہ گیا اور تقریباً تمام آبادی پشاور‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلع ٹانک کی طرف ہجرت کر گئی۔اڑھائی برس کی اس باہمی جنگ کے بعد ۴۵ قبائل کے گرینڈ جرگہ اور حکومت کے مابین امن معاہدہ ہو گیا۔یہ معاہدہ ۲۰جولائی ۲۰۰۶ء کو ہوا۔ سوات کا جہاد: تاریخ و اسباب مالاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے عالم دین صوفی محمدحفظہ اللہ نے مالاکنڈ میں شریعت کے نفاذ کے لیے ’تحریک نفاذ شریعت محمدی ‘ کی بنیاد رکھی۔۱۹۹۴ء میں اس تحریک سے متعلق بعض افراد نے بغاوت کی جو کہ ناکام ہوگئی ۔ ۲۰۰۱ء میں جب طالبان حکومت پرامریکہ نے حملہ کیا تو صوفی محمدd کی قیادت میں دس ہزار افراد کا لشکر مالاکنڈ سے طالبان کی نصرت کے لیے افغانستان گیا۔طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ افراد واپس پاکستان آ گئے اور امریکہ کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے ان کی ایک بڑی تعداد کو القاعدہ کے ارکان کے طور پر پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں حکومت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف نفرت اور ردعمل میں اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۲ء میں پرویز مشرف نے تحریک پر پابندی لگا دی۔صوفی محمد حفظہ اللہ کے داماد مولوی فضل اللہ کی قیادت میں مقامی مجاہدین اکٹھے ہو گئے۔مولوی فضل اللہ نے اپنے ایف ایم چینل کے ذریعے علاقے میں جہادی فکر پھیلانا شروع کر دیا۔’نفاذ شریعت محمدی‘ کے ضلع سوات کے امیر نے یہ بیان جاری کیا کہ مولوی فضل اللہ کا تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے اور صوفی محمد نے ان کو غیر قانونی ایف ایم چینل چلانے کی وجہ سے تحریک |