Maktaba Wahhabi

73 - 264
٭ یا ایک شخص نماز روزہ تو کرتا ہے لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی بھی دیتا ہے تو کیا اس کا نماز روزہ اس کے کام آئے گا ؟ اس بارے امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’نعم یبقی أن یقال فھل ینفعہ ما معہ من الإیمان فی عدم الخلود فی النار فیقال ینفعہ إن لم یکن المتروک شرطا فی صحۃ الباقی واعتبارہ وإن کان المتروک شرطا فی اعتبار الباقی لم ینفعہ ولھذا لم ینفع الإیمان باللّٰہ ووحدانیتہ وأنہ لا إلہ إلا اللّٰہ ھو من أنکر رسالۃ محمد ولا تنفع الصلاۃ من صلاھا عمدا بغیر وضوء فشعب الإیمان قد یتعلق بعضھا ببعض تعلق المشروط بشرطہ وقد لا یکون کذلک۔‘‘ (76) ’’ پس اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کفریہ فعل کے مرتکب کے پاس جو ایمان ہے وہ اسے دائمی جہنمی بنانے میں مانع ہو گا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایمان اس کے دائمی جہنمی ہونے میں رکاوٹ بن سکتا ہے بشرطیکہ جس فعل کو وہ ترک کر رہا ہے وہ بقیہ ایمان کی صحت کے لیے شرط اور معتبر نہ ہو ۔ اگر تو جس فعل کو وہ ترک کر رہا ہے وہ بقیہ ایمان کے معتبر ہونے میں شرط ہو تو پھر بقیہ ایمان اس کو فائدہ نہ دے گا۔ پس یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کر دیا تو اسے ایمان باللہ اور اللہ کی توحید یا لا الہ الا اللّٰہ کچھ فائدہ نہ دے گا[کیونکہ یہاں اس نے ایک ایسے فعل کو ترک کیا ہے جو اس کے بقیہ ایمان کے لیے بھی ایک معتبر شرط کی حیثیت رکھتا تھا لہٰذا شرط کے مفقود ہونے سے مشروط بھی مفقود ہو گیا ۔ پس بقیہ ایمان قابل فائدہ نہ رہا]۔ اسی طرح اس شخص کو اس کی نماز کوئی فائدہ نہ دے گی جو جانتے بوجھتے بغیر وضو کے نماز پڑھتا ہے ۔ پس ایمان کی شاخوں میں بعض کا بعض سے تعلق بعض اوقات شرط اور مشروط کا ہوتا ہے اور بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ حاکم بغیر ما أنزل اللّٰہ کے بارے سلف صالحین کی رائے ان اصولوں کی بنیاد پر ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ جمیع سلف
Flag Counter