قَدْ جِئْنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی() اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی() قَالَ فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی() قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی() قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی()قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَی﴾(7) ’’پس حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون i فرعون کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: بلاشبہ ہم دونوں تیرے رب کے رسول ہیں ‘ پس تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے اور انہیں عذاب نہ دے۔ ہم دونوں تیرے پاس تیرے رب کی واضح نشانی لے کر آئے ہیں اور جس نے ہدایت کی پیروی کی تو اس پر سلامتی ہو۔ ہم دونوں پر یہ بھی وحی کی گئی ہے کہ جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا تو اس کے لیے عذاب ہے۔ فرعون نے کہا: اے موسیٰ ! تم دونوں کا رب کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو پیدا کیااور پھر اس کی رہنمائی کی۔ فرعون نے کہا: پس پہلی قوموں [ہمارے آباء واجداد] کا کیاحال ہو گا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ان کا حال میرے رب کے پاس ایک کتاب میں محفوظ ہے اور میرا رب نہ تو بے اعتدالی کرتا ہے اور نہ ہی بھولتا ہے۔‘‘ یہ بھی واضح رہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے سامنے دعوت پیش کرتے ہوئے ﴿فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا﴾(8) میں نرم رویہ اختیار کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا ۔اب دعوت کے مرحلے میں امت محمدیہ کے افراد کو جب مخاطبین کی طرف سے کوئی ایسا سوال پیش آئے تو انہیں حضرت ابراہیم یا حضرت موسیٰ i جیسا جواب دینے کی اجازت ہے یا نہیں ؟تفصیلی منہج کے اختیار کرنے یا نہ کرنے سے ہماری مراد اس بحث کی وضاحت تھی۔ منہاج محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مصادر امت محمدیہ میں نفاذ شریعت کا منہج کہاں سے معلوم ہو گا؟ یا اس کے مصادر کیا ہیں ؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ شریعت محمدیہ کے بنیادی مصادر تو قرآن اور سنت ہیں اور ثانوی مصادر میں اجماع‘ قیاس ہیں اور فقہاء کے مابین شریعت کے اختلافی مصادر میں شرائع |