وغیرہ نے ﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾کومطلق طور پر ’کفر دون کفر‘ پر محمول کیا ہے یعنی ایسا کفر جو حقیقی کفر نہیں ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں : ’’قال ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما: إنہ لیس بالکفر یذھبون إلیہ إنہ لیس کفرا ینقل عن الملۃ ﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ کفر دو ن کفر۔‘‘ (11) ’’ حضرت عبد اللہ بن عباسt نے کہا: جس کو وہ اختیار کرتے ہیں وہ کفر نہیں ہے۔بے شک وہ ایسا کفر نہیں ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دے۔ اور آیت مبارکہ ﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ میں کفر دون کفر یعنی ایسا کفر جو کفر حقیقی نہیں ہے‘ کا ذکر ہے۔‘‘ امام حاکم اور امام ذہبی; نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(12) تفسیر طبری میں یہ قول عطاء اور طاؤس; سے بھی مروی ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس t کے قول کا مفہوم یہ ہے کہ تقریباً ناممکن ہے کہ ایک مسلمان حکمران جانتے بوجھتے اللہ کے حکم کا مذاق اڑائے یا اس کو غیر ضروری سمجھے۔جب بھی کوئی مسلمان حکمران اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا تو یا تو اس میں جہالت مانع ہو گی یا کوئی اور ایسادنیاوی عذر مثلاً دشمن کا ڈر یا خوف وغیرہ ہو گاجو اس کے اس کفریہ فعل کو کفر حقیقی کے درجے سے نکال کر کفر مجازی اور کفر عملی میں داخل کر دے گا۔ آیت ولایت مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کی دوسری بڑی بنیاد یہ آیت مبارکہ ہے: ﴿یٰٓاَیھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَائَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾ (13) ’’ اے اہل ایمان! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ‘ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی رکھے گا تو وہ بھی انہی میں سے ہے ۔‘‘ اس آیت مبارکہ سے حکمرانوں کی تکفیر پر ظاہری استدلال درست نہیں ہے۔پہلی |