حکمرانی سے اتارا جائے گااور نہ ہی اس وجہ سے اس کے خلاف خروج جائز ہو گابلکہ اس کو وعظ و نصیحت کرنا اور اس کو اللہ کاخوف دلاناایک شرعی فریضہ ہے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے۔قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا ہے:ابوبکر بن مجاہد رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے اور ان کے اس دعویٰ اجماع کا رد یوں کیا گیا ہے کہ حضرت حسین ‘ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور اہل مدینہ نے بنوامیہ کے حکمرانوں کے خلاف خروج کیا۔اسی طرح صدر اول میں تابعین کی ایک عظیم جماعت نے أشعث کے ساتھ حجاج کے خلاف خروج کیا۔۔۔جبکہ جمہور کی دلیل یہ ہے کہ حجاج کے خلاف اِن سلف صالحین کا خروج صر ف فسق و فجور کی بنا پر نہ تھابلکہ اس وجہ سے تھا کہ اس نے شریعت اسلامیہ کو تبدیل کر دیا تھااور کفر کی تائید کی تھی۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ اختلاف شروع میں تھا جبکہ بعد کے زمانوں میں ایسے حکمرانوں کے خلاف خروج کے عدم جواز پر اجماع ہو گیا۔‘‘ اہل علم کے نزدیک اس مسئلے میں اجماع کا دعویٰ درست نہیں ہے اور یہی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہور اہل علم کا موقف یہ ہے کہ فاسق و فاجر حکمران کے خلاف خروج حرام ہے اور اس موقف کے دلائل ہم اوپر نقل کر چکے ہیں ۔ مصلحت وحکمت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس عدم خروج کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسے خروج سے حاصل ہونے والا فتنہ و فساد ‘ اس حکمران کے ذاتی فسق و فجور سے کئی گنا بڑا ہوتا ہے۔وہ فرماتے ہیں : ’’لا یجوز إنکار المنکر بما ھو أنکر منہ ولھذا حرم الخروج علی ولاۃ الأمر بالسیف لأجل المعروف والنھی عن المنکر لأن ما یحصل بذلک من فعل المحرمات وترک واجب أعظم مما یحصل بفعل المنکر والذنوب والأئمۃ لا یقاتلون بمجرد الفسق کالزنا وغیرہ فلیس کلما جاز فیہ القتل جاز أن یقاتل الأئمۃ لفعلھم إیاہ إذ |