Maktaba Wahhabi

72 - 264
ارتکاب کیا ہے وہ کفر کی قسموں میں سے ایک قسم ہیں کیونکہ تمام کے تمام گناہ کفر کی مختلف شاخیں ہیں اور تمام قسم کی اطاعتیں ایمان کی شاخیں ہیں ۔گناہ کبیرہ کے مرتکبین سے ایمان کی نفی کے مقابلہ میں [جیسا کہ زانی ‘ شرابی اور چور سے ایمان کی نفی کی گئی ہے ]تارک صلاۃ سے ایمان کی نفی کرنا بالاولیٰ ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ نہ ہوں ‘ اس سے اسلام کی نفی کے مقابلہ میں [جیسا کہ حدیث میں ثابت ہے] تارک صلاۃ سے اسلام کی نفی کرنا بالاولیٰ ثابت ہوتی ہے۔ پس تارک صلاۃ کونہ تو مومن کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی مسلمان‘ اگرچہ وہ ایمان اور اسلام کی شاخوں میں سے بعض شاخوں پر قائم ہو۔‘‘ پانچواں نکتہ جب کتاب وسنت سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ایک شخص میں ایمان و کفر اور توحیدو شرک جمع ہو سکتے ہیں تو کیا کسی شخص کو روز آخرت عملی کفر کی موجودگی میں اس کا ایمان یا عملی شرک کی موجودگی میں اس کی توحید کام دے گی ؟ اس بارے امام ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اس کی دو قسمیں بنتی ہیں: 1۔ اگرتو کسی شخص کا عملی کفر ایسا ہے جو بقیہ ایمان کے لیے شرط کا درج نہیں رکھتا ہے تو بقیہ ایمان اس کو آخرت میں فائدہ دے گا ۔ 2۔ اور اگر تو اس کا عملی کفر بقیہ ایمان کے لیے شرط کا درجہ رکھتا ہے تو اس کا بقیہ ایمان آخرت میں اس کے لیے نفع بخش نہ ہو گا۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ: ٭ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا اور کفریہ فعل کا مرتکب ہوتا ہے تو کیا اسے اس کے روزوں یا صدقہ و زکوۃ وغیرہ جیسے دوسرے نیک اعمال کا فائدہ ہو گا؟ ٭ یا کوئی حکمران ’ما أنزل اللّٰہ‘ کے مطابق فیصلے نہیں کرتا ہے اور عملی طور پر کافر ہے تو کیا اسے اس کے نماز روزے کا اجر وثواب ملے گا؟ ٭ یا ایک شخص مسجد میں جا کر پانچ وقت نماز بھی پڑھتا ہے اور مندر میں جا کر بت کے سامنے ماتھا بھی ٹیکتا ہے تو کیا اس کی نماز اس کے لیے نفع بخش ہو گی؟
Flag Counter