ملک پر غاصبانہ قبضہ کر لے تو اس کے خلاف جہاد ہو گا بشرطیکہ اس جہاد کی اہلیت و استطاعت مسلمانوں میں موجود ہو۔مرتد حکمران کے خلاف خروج کی اصطلاح اس لیے استعمال کی گئی ہے کہ وہ اور اس کے لاؤ لشکراور پیروکار اس کو مسلمان سمجھ رہے ہوتے ہیں اور کلمہ شہادت کا اقراربھی کرتے ہیں جبکہ علماء کا اجتماعی فتویٰ حکمران کے بارے میں تو تکفیرکا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھی لاؤ لشکر کی اجتماعی تکفیر مشکل امر ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے عقیدے کے بارے جاننا ایک ناممکن امر ہے۔ ظالم‘ بے نماز اور مرتد حکمرانوں کے خلاف خروج کی شرائط خروج کی تمام اقسام میں چونکہ مسلمانوں کے مابین قتل و غارت اور فتنہ و فساد کا اندیشہ ہوتاہے لہٰذا اس کی کئی ایک شرائط علماء نے مقرر کی ہیں ۔ 1۔ خروج میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر قتل و غارت‘ فتنہ و فساد اور امن و امان کی تباہی نہ ہو۔اگر ایسا ہو تو ظالم‘ بے نماز اور مرتد حکمران کے خلاف یہ خروج جائز نہیں ہو گا۔شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مھما کان الأمر الخروج علی الحاکم ولو کان کفرہ صریحا مثل الشمس لہ شروط فمن الشروط أن لایترتب علی ذلک ضرر أکبر بأن یکون مع الذین خرجوا علیہ قدرۃ علی إزالتہ بدون سفک دماء أما إذا کان لا یمکن بدون سفک دماء فلا یجوز لأن ھذا الحاکم الذی یحکم بما یقتضی کفرہ لہ أنصار و أعوان لن یدعوہ۔۔۔لو فرض أنہ کافر مثل الشمس فی رابعۃ النھار فلا یجوز الخروج علیہ إذا کان یستلزم إراقۃ الدماء واستحلال الأموال۔‘‘ (71) ’’ جیسا بھی معاملہ کیوں نہ ہو اور اگر حکمران کا کفر سورج کی طرح روشن ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس کے خلاف خروج کی کچھ شرائط ہیں ۔پس ان شروط میں ایک شرط یہ ہے کہ اس خروج کے نتیجے میں کوئی بڑا ضرر مرتب نہ رہا ہویعنی جو لوگ حکمران کے خلاف خروج کر رہے ہیں ‘ ان کے پاس بغیر مسلمانوں کی خون ریزی کیے حکمران کوہٹانے کی قوت و طاقت موجود ہو۔پس اگر حکمران کو بغیرمسلمانوں کی |