Maktaba Wahhabi

180 - 264
یہ بات بھی درست ہے کہ کفر بواح کے مرتکب حکمران کے خلاف خروج علماء کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے لیکن اس میں ان کا اختلاف ہے کہ اس خروج کے جواز کے دلائل کیا ہیں ۔بعض علماء نے اس خروج کے جواز کے لیے کفر بواح والی مذکورہ بالا روایت کودلیل بنایا ہے جبکہ بعض علماء نے حکمران کے نماز نہ پڑھنے والی روایات سے اس خروج کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ اس مسئلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی مسلمان حکمران کے مرتد ہونے کی دو صورتیں ہیں : 1۔ وہ خود اس بات کا اعلان کرے کہ اس نے دین اسلام کو چھوڑ دیا ہے ۔یہ تو اس کے مرتد ہونے کی قطعی صورت ہے ۔اس صورت میں اس اعلان کے ساتھ ہی وہ مسلمانوں کی امامت سے معزول ہو جائے گااوراہلیت و استطاعت کی صورت میں اس کے خلاف جہاد واجب ہو گا۔ 2۔ کوئی مسلمان حکمران نواقض اسلام میں سے کسی ناقض اسلام فعل کا مرتکب یا عقیدے کا حامل ہو اور وہ اپنے مسلمان ہونے کا مدعی ہو تو علماء کے کلام کی روشنی میں اس صور ت میں اس کی تکفیر میں اگرتین باتوں کا لحاظ رکھا جائے تو اس کے خلاف خروج جائز ہو گا۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں : 1۔ اس کی تکفیر میں کوئی مانع نہ ہومثلاً جہالت وغیرہ ۔ 2۔ وہ متأول نہ ہو‘ اگر وہ کسی نص کی تاویل کر رہا ہے تو اس کا علمی جواب دیا جائے گا۔ 3۔ جن بنیادوں پر اس کی تکفیر کی جائے ‘ وہ اتنی واضح ہوں کہ علماء کے مابین اس کی تکفیر میں اختلاف نہ ہونے کے برابر ہو۔ ان تین شرائط کے پائے جانے کے بعد اس حکمران کو علماء کی طرف سے اپنے اس عقیدے یا کفریہ فعل سے رجوع کی دعوت دی جائے گی اور وہ اس کے باوجود اس عقیدے یا کفریہ فعل پر مصر رہے تو اس کے خلاف خروج جائز ہوگا بشرطیکہ اس کی اہلیت و استطاعت موجود ہو اور اس تکفیر اور خروج کی اہلیت واستطاعت کا فیصلہ بھی متنوع مکاتب فکر کے علماء اور اسلامی تحریکوں کے رہنما کریں گے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ جہاں تک کافر حکمران کا معاملہ ہے تو اس کے خلا ف خروج یا بغاوت کی اصطلاح نہیں ہے بلکہ جہاد کی اصطلاح ہے۔لہٰذا کافر حکمران اگر کسی مسلمان
Flag Counter