نووی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ہے اگر حکمران کفر بواح کا مرتکب ہو تو اس کی سمع و طاعت جائز نہیں ہے اور کفر سے مراد امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک ہر قسم کی معصیت ہے۔امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’والمراد بالکفر ھنا المعاصی۔۔۔ومعنی الحدیث لا تنازعوا ولاۃ الأمور فی ولایتھم ولا تعترضوا علیھم إلا أن تروا منھم منکراً محققاً تعلمونہ من قواعد الإسلام فإذا رأیتم ذلک فأنکروہ علیھم وقولوا بالحق حیث ما کنتم۔‘‘ (70) ’’یہاں کفر سے مراد معصیت ہے۔۔۔اور حدیث کا معنی یہ ہے کہ تم اپنے حکمرانوں سے ان کی حکمرانی کے بارے میں جھگڑا نہ کرو اور ان پر اعتراضات نہ کرو سوائے اس کے کہ تم ان میں کوئی ثابت شدہ منکر دیکھو کہ جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہو۔پس جب تم حکمران میں کوئی ایسا منکر دیکھو تو اس منکر کا انکار کرو اور جہاں بھی ہو حق بات کہو۔‘‘ جبکہ اس روایت کا ایک دوسرا مفہوم ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس روایت سے کفر بواح کے مرتکب حکمران کے خلاف خروج کے جواز کا حکم ثابت ہوتاہے۔اس رائے کا جواز بھی یوں نکلتا ہے کہ ’ننازع‘ باب مفاعلہ سے ہے اور’’ننازع الأمرأہلہ‘‘ کا معنی حکومت و امارت کو اس کے اہل سے کھینچنا بھی بن سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس حدیث کے الفاظ امام نووی رحمہ اللہ کی رائے کی تائید کرتے ہیں کہ یہ روایت خروج کے مسئلے کو بیان ہی نہیں کر رہی ہے۔امام نووی رحمہ اللہ کی اس رائے کی تائید اس بات سے بھی ہو رہی ہے کہ اس حدیث کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ آپ نے صحابہ سے یہ بیعت ان ماتحت امراء کے بارے میں لی تھی کہ جن کو آپ وقتاً فوقتاً مختلف غزوات میں امیر مقرر کرتے رہتے تھے۔اور آپ کے زمانے میں آپ کے ان ماتحت امراء کے خلاف خروج کا کوئی مسئلہ زیر بحث ہی نہیں ہو سکتا تھا۔اسی لیے امام نووی رحمہ اللہ نے اس روایت پر’’باب وجوب طاعۃ الأمراء فی غیر معصیۃ‘‘کے نام سے باب باندھا ہے۔ بہرحال دونوں معانی کی گنجائش اگرچہ روایت کے الفاظ میں موجود بھی ہو لیکن راجح معنی ہمیں پہلا ہی معلوم ہوتا ہے ۔ |