کفر عملی کی تفصیل تکفیر کا دو سرا مسئلہ جسے سلفی علماء نے شدت سے نمایاں کیاہے وہ یہ اصول ہے کہ کفر بعض صورتوں میں اعتقادی اور ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں یہ صرف کفریہ فعل ہوتا ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتااگرچہ اس فعل کے مرتکب کے لیے کتاب وسنت میں کفر یا کافر کا لفظ ہی کیوں نہ وارد ہوا ہو۔ دوسری قسم یعنی کفر عملی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کافی دقیق اور لطیف بحثیں کی ہیں جن کا خلاصہ ہم یہاں نقل کر رہے ہیں ۔ پہلی قسم یعنی اعتقادی کفر میں کسی کا بھی کوئی اختلاف نہیں ہے لہٰذا ہم اس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کر رہے ہیں ۔ پہلا نکتہ امام صاحب نے کفر کی دو قسمیں بیان کی ہیں : 1۔ کفر اعتقادی جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے 2۔ کفر عملی۔ دوسری قسم کو انہوں نے مزید دو قسموں میں تقسیم کیا ہے : 1۔ پہلا وہ کفر عملی ہے جو ایمان کی ضد ہو یعنی اس کفریہ عمل اور ایمان کا اجتماع ممتنع اور ناممکن ہو۔ 2۔ دوسرا وہ کفر عملی ہے جو ایمان کی ضد نہ ہو یعنی اس کا اور ایمان کا اجتماع ممکن ہو۔ پہلی قسم کے کفر عملی کے بارے سلف صالحین کا موقف یہ ہے کہ یہ ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے جبکہ دوسری قسم کا کفر عملی ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث اور سبب نہیں ہے لیکن امام صاحب یہ بات بھی واضح کرتے ہیں کہ دوسری قسم کے کفریہ فعل کا مرتکب عملی کافر ضرور کہلائے گا کیونکہ جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کہا ہو تو اسے کافر کہنے میں کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے بشرطیکہ جس معنی میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کافر کہا ہے اسی معنی میں اس کو کافر کہا جا رہا ہو۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وھھنا أصل آخر وھو الکفر نوعان : کفر عمل وکفر جحود |