حکمران کے خلاف خروج کرے اور پورے خطے کے مسلمانوں کو جنگ کا حصہ بنا دے۔ اور بالفرض اگر کوئی ایک عالم دین یا گروہ ایساکرے گا تو اسے حکومت کی مخالفت کے ساتھ دیگر مذہبی جماعتوں ‘ دینی تحریکوں اور مخالف مکاتب فکرکے پیروکاروں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔یہ بھی امکان ہے کہ اس سمسلح گروہ کو حکمران سے جنگ لڑنے سے پہلے اپنے ہی مذہبی بھائیوں سے ایک جنگ لڑنی پڑے اور یہ ملک مذہبی فرقہ واریت اور خانہ جنگی کا شکار ہو جائے۔ پاکستان کے حالات میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر بریلوی ‘ دیوبندی‘ اہل حدیث علماء اور مذہبی‘ دعوتی‘ تحریکی و انقلابی جماعتوں کی قیادت بالاتفاق یہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ موجودہ ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا چاہیے اور ان حکمرانوں کا فسق و فجور اور ظلم کفر کی سرحدوں کو پار کر چکا ہے اور اس کی اہلیت و قدرت بھی ان کے متبعین میں موجود ہے تو اس اجتماعی مذہبی قیادت میں یہ خروج جائز ہو گا۔واللہ اعلم بالصواب! بے نماز حکمرانوں کے خلاف خروج ایسا حکمران جو نماز نہ پڑھتا ہو اس کے خلاف خروج جائز ہے بشرطیکہ اس خروج کی طاقت و اہلیت ہو۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک نماز کو کفر قرار دیا ہے۔آپ کا ارشاد ہے: ((إن بین الرجل وبین الشرک والکفر ترک الصلاۃ)) (65) ’’ ایک شخص اور کفر وشرک کے مابین حد فاصل نماز کو ترک کر دینا ہے۔‘‘ لہٰذا جو شخص نماز ادا نہیں کرتا‘ جمہور علماء کے نزدیک وہ مجازی یا عملی کافر ہے جبکہ علماء کی ایک جماعت اسے حقیقی کافر قرار دیتی ہے۔ہمارا رجحان پہلی رائے کی طرف ہے۔ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک بے نماز کافر و مرتد اور واجب القتل ہے جبکہ امام مالک اور امام شافعی ; کے نزدیک بے نماز کافر حقیقی تونہیں ہے لیکن اس سے تین دن تک توبہ کروائی جائے گی اور اگر توبہ نہ کرے گا تو بطور حد قتل کیا جائے گا۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بے نماز کی تعزیری سزا مارپیٹ اور قیدہے۔(66) ہمارا رجحان امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کی طرف ہے۔ پس بے نماز حکمران کا فسق و فجور بہت زیادہ |