Maktaba Wahhabi

174 - 264
اس خروج کی ممانعت کی علت و حکمت وہی ہے جو ہم نے بیان کر دی ہے یعنی ہر زمانے میں بالعموم اور ہمارے زمانے میں بالخصوص امراء اور مامورین میں طاقت کا توازن نہ ہونے کے برابر ہے ۔جمہور علماء مالکیہ ‘ شافعیہ‘حنابلہ‘ اہل الحدیث اور حنفیہ کی ایک جماعت نے اسی حکمت و علت کے پیش نظر ظالم حکمران کے خلاف خروج کو مطلقاً ناجائز قرار دیاہے۔ ان علماء نے امت میں ہونے والے خروج کے مفاسد اور فتن کو دیکھتے ہوئے اپنا منہج ہی یہ قرار دے دیا کہ فاسق و ظالم کے خلاف خروج بالکل بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اکثر لوگوں نے خروج کیا اور ان کا گمان یہ تھا کہ ان کا خروج کامیاب ہو گا لیکن کامیاب نہ ہوا۔ لہٰذا ان علماء نے قدرت و اہلیت کی شرط بھی نہ لگائی کیونکہ تاریخ میں قدرت و اہلیت کی شرط کا اندازہ اکثرو بیشتر خروج کرنے والے نہ کر سکے اور نتیجے میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام حاصل ہوا۔ البتہ حنفیہ کی ایک جماعت نے قدرت واہلیت کی شرط لگائی ہے جس پرہم آگے چل کر بحث کریں گے۔ ہماری رائے اس مسئلے میں وہی ہے جو جمہور کی ہے کہ ایسے حکمران کے خلاف خروج درست نہیں ہے۔ہاں اگرکسی ریاست یا ملک کے علماء یہ طے کریں کہ اس خطہ ارضی میں حکمرانوں کا ظلم و ستم اور فسق و فجور کفر کی حد تک بڑھ گیا ہے اور ان کے خلاف خروج سے پیدا ہونے والا فساد ‘ ان کے اقتدار میں باقی رہنے کے فتنہ و فساد سے بڑھ کر نہیں ہے تو پھر اس صورت میں خروج جائز ہو گا جبکہ اس خروج کی اہلیت و استطاعت موجود ہو اور اس اہلیت و استطاعت کا علم کیسے ہو گا‘ اس کا فیصلہ بھی اس خطے ہی کے تمام علماء و فقہاء اور اصحاب حل و عقد کریں گے کہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف خروج کی طاقت و اہلیت موجود ہے یا نہیں ۔اس اجماعی و اتفاقی فتویٰ کی موجودگی میں ظلم کا بدلہ لینے والی آیات یانہی عن المنکر بالید والی روایات سے استدلال کرتے ہوئے خروج کیا جا سکتا ہے۔ حکمران جماعت سے قتال کی قدرت و اختیار ہے یا نہیں ؟ اس کا فیصلہ کوئی ایک عالم دین ‘ مذہبی لیڈر یا جماعت کرے گی تو سوائے فتنہ و فساد کے کچھ بر آمدنہ ہوگا اور یہ قتال جائز بھی نہ ہو گاکیونکہ اس مسئلے کا تعلق مسلمانوں کی اجتماعیت سے ہے۔جب ایک خطے کے تمام مسلمانوں اور مکاتب فکر کے پیروکاروں کو باہمی جنگ و جدال کا حصہ بنانا ہے تو کسی ایک عالم دین یا مذہبی لیڈر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے کسی اجتہاد کی بنیاد پر ظالم
Flag Counter