Maktaba Wahhabi

57 - 264
تکفیر کے قائل ہیں ۔ پس آج بھی حکمران اگر وضعی مجموعہ قوانین کو ’من جانب اللہ‘ سمجھتے ہیں یا اس کو خلاف اسلام کہنے والوں کے خون کو حلال سمجھتے ہیں یا اس قانون کے واضعین کو اللہ کے رسول کے برابر درجہ دیتے ہیں توان کے کفر میں بھی کوئی شبہ باقی نہیں رہتا لیکن بغیر کسی کفریہ عقیدے کے مطلق ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کو’ کفر اکبر‘ قرار دینے کی کوئی شرعی ‘ عقلی ‘ نقلی یا تاریخی دلیل موجود نہیں ہے۔ہاں ، ایسا عمل ’کفر اصغر‘ یا ’کفر عملی‘ یا ’کفر مجازی‘ ضرور ہے۔ تکفیر کے قائل بعض سلفی حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج کل کے حکمرانوں اور سلف صالحین کے حکمرانوں میں بہت فرق ہے اور اسی فرق کی وجہ سے سلف صالحین نے اپنے دور کے حکمرانوں کی تکفیر نہیں کی لیکن ہمیں کرنی چاہیے۔ ہماری رائے میں یہ تجزیہ بھی تاریخ اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔(64) مسئلہ تکفیر کی اصولی بنیادیں سلفی علماء مسئلہ تکفیر میں کچھ بنیادوں کو اس شدت اور صراحت سے نکھارتے ہیں کہ اس کے بعد کسی تفصیل یا وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ ان اصولی بنیادوں کو اس لیے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تکفیر کے مسئلہ میں اصولی اختلاف ہی کی وجہ سے خوارج اور معتزلہ گمراہ ہوئے ہیں ۔جب تک کوئی شخص ان اصولوں کو تھامے رہے گا تو وہ سلف صالحین کے منہج پر قائم رہے گا لیکن جیسے ہی اس نے کسی اصول کو ترک کیا تو وہ خوارج اور معتزلہ کے منہج پر چل نکلے گا۔ ہم یہاں یہ بھی وضاحت کر دینا چاہتے ہیں کہ متقدمین سلف صالحین میں اصولوں کے بیان میں اجمال ہے جبکہ متاخرین نے اس اجمال کو تفصیلی شکل دے دی ہے۔ ہماری رائے میں جو اجمالی بیان متقدمین کے ہاں پایا جاتا ہے اسی کو برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ اجمال کی تفصیل میں اہل علم کا اختلاف ممکن ہے ۔ مثلاً امام ابن قیم رحمہ اللہ نے نواقض اسلام کو انتہائی اجمال کے ساتھ تین صورتوں میں مقید کر دیاہے جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے جبکہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے ان اصولوں کی تفصیل بیان کر تے ہوئے
Flag Counter