انہیں پھیلا دیا ہے جس سے بعض لوگوں کو تکفیر کے مسئلہ میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں ۔ یہی معاملہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا بھی ہے کہ انہوں نے’ ما أنزل اللہ‘ کے بغیر تحکیم کو چھ حصوں میں تقسیم کر دیا کہ جس سے کئی ایک غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور انہیں بالآخر اپنے قول سے رجوع کرنا پڑا۔ جبکہ سلف صالحین نے اس مسئلے کو اجمال کے ساتھ دوقسموں میں تقسیم کر دیا ہے: 1۔ کسی شخص نے یہ کام حلال سمجھتے ہوئے کیا ہے ۔ 2۔ یا حلال نہ سمجھتے ہوئے کیا ہے۔(65) اسی طرح سلف صالحین نے توحید کی اجمال کے ساتھ تین قسمیں بیان کی تھیں : 1۔ توحید ربوبیت 2۔ توحید اُلوہیت 3۔ توحید اَسماء وصفات(66) اب بعض معاصر سلفی علماء نے جب ان کی تفصیل کرنی چاہی اور توحید حاکمیت کے نام سے ایک اور قسم متعارف کروائی تو اختلافات کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ اسی طرح شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے جب نواقض اسلام کی تفصیل میں پڑناچاہا تو کبار حنفی علماء نے مسئلہ تکفیر میں ان سے شدید اختلاف کیا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کے بقول متقدمین سلف صالحین عقیدہ کی بنیادوں کو متاخرین سے بہت بہتر سمجھتے ہیں ۔ لہٰذاہماری رائے یہی ہے کہ توحید اور تکفیر کے اصولی اور بنیادی مسائل میں متقدمین سلف صالحین کی اجمالی تقسیم‘ متاخرین کی تفصیلات کی نسبت راجح اور اقرب الی الصواب ہے۔اس بحث میں ہم متقدمین میں سے امام ابن قیم رحمہ اللہ کی اصولی تقسیم اور مباحث کو شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے نواقض اسلام کی تفصیل پر قابل ترجیح سمجھتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی نواقض اسلام کی بجائے امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب ’تارک الصلاۃ وحکمھا‘ کو بطور عقیدہ پڑھانااور ذہنوں میں راسخ کرنا چاہیے ۔ نواقض اسلام کے بیان میں امام ابن قیم رحمہ اللہ یا سلف صالحین کے اس اجمالی منہج کو معاصر سلفی علماء نے بھی قبول کیا ہے اور برقرار رکھا ہے جیسا |