مسلمان ریاست یااجتماعیت اُن اسباب و ذرائع اور استعداد و صلاحیت کی حامل ہو کہ جس کی طرف ہم سابقہ سطور میں بار باراشارہ کر چکے ہیں ۔جب تک ہمارے پاس کفار سے جنگ کی استعداد و صلاحیت موجود نہیں ہے اس وقت تک اسلام کے پھیلانے کا منہج دعوت و تبلیغ ہے نہ کہ جہاد و قتال۔ اور کفار کے ظلم کا جواب صبرہے نہ کہ جنگ وجدال۔ کسی بھی معاشرے میں اسلام کے نفوذ کے لیے مسلمانوں کو حالات کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو منہج دیے گئے ہیں : 1۔ دعوت و تبلیغ اور صبر ومصابرت 2۔ جہاد و قتال اور ظلم وستم کا خاتمہ ونظام عدل کا قیام دونوں مناہج کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات میں کام کیا ہے اور اب بھی جیسے حالات ہوں گے ویسا ہی منہج اختیار کیاجائے گا۔یہ کہنا کہ دعوت و تبلیغ اور صبر و مصابرت کا منہج منسوخ ہو چکاہے ‘ ایک غلط دعویٰ ہے کہ جس کی کوئی دلیل شریعت اسلامیہ میں موجود نہیں ہے۔دعوت و تبلیغ اور صبر و مصابرت سے متعلق قرآن کی سینکڑوں آیات کو بغیر کسی دلیل کے منسو خ قرار دینا سوائے ناواقفیت کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔امام زرکشی رحمہ اللہ نے’البرھان‘ میں ناسخ و منسوخ کی بحث کے تحت اس موضوع پر عمد ہ کلا م کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسلام کے یہ دونوں مناہج تاحال برقرار ہیں اور حالات کے تحت کسی بھی منہج کو اختیار کیاجا سکتا ہے۔(22) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے’الفوز الکبیر‘میں قرآن کی صرف پانچ آیات کو منسوخ قرار دیاہے اور یہی رائے راجح اور صحیح ہے۔ ٭٭٭ مصادر ومراجع ۱۔النساء: ۴ : ۱۷۵ ۲۔الأنفال : ۸ : ۶۵۔۶۶ ۳۔القرطبی أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد بن أبی بکر، الجامع لأحکام القرآن : الأنفال : ۶۷، دار الکتب المصریۃ، القاھرۃ، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۹۶۴ء، ۸؍۴۵ |