Maktaba Wahhabi

229 - 264
رسول اللّٰہ ویقیموا الصلاۃ ویؤتوا الزکوۃ فإذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ھم وأموالھم إلا بحق الإسلام وحسابھم علی اللّٰہ ))(20) ’’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کرو ں جب تک کہ وہ یہ اقرار نہ کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد e اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم نہ کریں اور زکوٰۃ اداکریں ۔ پس جب وہ یہ کر لیں گے تو اپنے مال اور جانیں مجھ سے بچا لیں گے سوائے اسلام کے حق کے‘اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ اس حدیث مبارکہ میں ’الناس‘سے مراد مشرکین ہیں کیونکہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کی ایک روایت میں((أن أقاتل المشرکین))کے الفاظ آئے ہیں ۔قرآن میں سورۃ توبہ میں بھی یہ حکم ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: ﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ (21) ’’پس تم مشرکین کو قتل کرو جہاں بھی ان کو پاؤ اور ان کو پکڑو اور ان کا گھیراؤ کرو اور ان کے لیے ہر گھات لگانے کی جگہ میں بیٹھو۔ پس اگر وہ لوٹ آئیں(یعنی اپنے کفر سے اسلام کی طرف)اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔‘‘ قرآن کے اسی حکم کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے((أمرت أن أقاتل الناس)) کے الفاظ سے بیان کیا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ہے۔چونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مشرکین عرب کی طرف خاص طور پر ہوئی تھی اس لیے ان کے معاملے میں یہود و نصاریٰ اور دوسرے کفارکی نسبت زیادہ سختی کی گئی ہے اور ان کے لیے جزیہ کی صورت باقی نہیں رکھی گئی ۔ پس ان مشرکین کے لیے دو ہی صورتیں تھیں : یا تو اسلام قبول کر لیں یا پھر قتال کے لیے تیار ہو جائیں یا تیسری صورت یہ تھی کہ حجاز کاعلاقہ چھوڑ کرکہیں اور منتقل ہوجائیں۔ یہ واضح رہے کہ قتال کی اس علت اور غایت کی بنیاد پر قتال اس وقت ہوگا جبکہ کوئی
Flag Counter