Maktaba Wahhabi

80 - 264
رکھتا۔‘‘ (90) علم دین کا معاملہ بہت ہی نازک ہے اور اسے لیتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم کہاں سے یہ دین لے رہے ہیں ؟ کیونکہ آپ کا ارشاد ہے: ((اِتَّخَذَ النَّاسُ رَئُ وْسًا جُھَّالًا‘ فَسُئِلُوْا فَاَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ‘ فَضَلُّوْا وَاَضَلُّوْا)) (91) ’’[ایک ایسا وقت آنے والا ہے] جبکہ لوگ جہلا کو اپنا بڑا بنا لیں گے۔ ان جہلا سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے جاری کریں گے پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘ آخر میں ہم مسئلہ زیر ِبحث کی نزاکت واضح کرنے کے لیے مفتی مصر جناب مفتی محمد عبدہ رحمہ اللہ کا ایک قول بیان کرتے ہوئے اپنی اس بحث کو ختم کرتے ہیں : ’’إنہ إذا صدر قول من قائل یحتمل الکفر من مائۃ وجہ ویحتمل الإیمان من وجہ واحد حمل علی الإیمان ولا یجوز حملہ علی الکفر۔‘‘ (92) ’’ جس کسی شخص سے کوئی ایسا قول صادر ہو جائے جس میں سو اعتبارات سے کفر کا احتمال ہو اور ایک پہلو سے ایمان کا احتمال ہو تو اس ایک ایمان والے پہلو کو ترجیح دی جائے گی اور اس کے اس قول کو کفر پر محمول نہ کیا جائے گا۔‘‘ ٭٭٭ مصادرومراجع ۱۔خلافت عثمانیہ میں اولاً ۱۸۵۰ء میں فرانسیسی قانون کے مطابق قانون تجارت اور ۱۸۵۷ء میں قانون اراضی نافذ ہوا۔ اس کے بعد فرانسیسی قانون کے نمونے پر قانون فوجدای بھی وضع کیا گیا۔بعد ازاں اطالوی قانون زیادہ مفید نظر آیا‘ تو اس کے مطابق ترامیم کر لی گئیں ۔ ۱۸۶۱ء میں تجاری عدالتوں کا قانون اساسی نافذ ہوا۔ ۱۸۶۸ء میں بحری تجارت کا قانون اور ۱۸۸۰ء میں عدالت ہائے دیوانی کا قانون اساسی بنایا گیا‘ اور ۱۹۱۱ء میں اس کا تکملہ وضع ہوا۔ اور ۱۹۰۶ء میں قانون إجرا جاری ہوا۔ ان کے علاوہ دوسرے قوانین بھی وضع کیے گئے جیسے یتیموں کے مال کی تنظیم‘ اور احکام صلح کا قانون اور شرعی
Flag Counter