اللہ کا نافرمان ہو] تو وہ کافر ہے اور جس نے بھی کوئی گناہ کا کام کیاتو اس نے ’ماأنزل اللّٰہ ‘ کے مطابق فیصلہ نہیں کیا۔ پس ایسے شخص کا کافر ہونا لازم ٹھہرا۔ متکلمین اور مفسرین نے ان خوارج کے اس استدلال کے کئی ایک جوابات نقل کیے ہیں ۔۔۔[ان جوابات میں سے ] پانچواں جواب یہ ہے کہ حضرت عکرمہ رحمہ اللہ نے کہا ہے: اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو’ ما أنزل اللّٰہ ‘ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا‘ اس کے بارے ہے جو اپنے دل سے اللہ کے حکم کا انکار کردے اور اپنی زبان سے بھی منکر ہوجائے۔ پس جو شخص اپنے دل اور زبان سے اسے اللہ کا حکم مانتا ہو اور پھر بھی اس کے خلاف چلے تو یہ’ ما أنزل اللّٰہ ‘کے مطابق ہی فیصلہ کرنے والا ہے ‘ اگرچہ وہ ’ماأنزل اللّٰہ ‘ کو چھوڑنے والا ضرور ہے۔ پس ایسا شخص اس آیت کے مفہوم میں داخل نہیں ہے اور یہی جواب صحیح ہے ۔ واللہ أعلم۔‘‘ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’والخلاصۃ : أن التکفیر ھو لمن استحل الحکم بغیر ما أنزل اللّٰہ وأنکر بالقلب حکم اللّٰہ وجحد باللسان فھذا ھو کافر أما من لم یحکم بما أنزل اللّٰہ وھو مخطیء ومذنب فھو مقصر فاسق مؤاخذ علی رضاہ الحکم بغیر ما أنزل اللّٰہ ۔‘‘ (89) ’’ خلاصہ کلام یہی ہے کہ تکفیر اس شخص کی ہو گی جو’ماأنزل اللّٰہ ‘ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کو حلال سمجھتا ہو اور دل و زبان سے اللہ کے حکم کا انکاری بھی ہو تو پس ایسا شخص کافر ہے ۔ اور جو شخص ’ماأنزل اللّٰہ ‘ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ گناہ گار‘ خطاکار اور فاسق ہے اور اس سے اس بات کا مواخذہ ہو گا کہ وہ’ ماأنزل اللّٰہ ‘ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے پر کیوں راضی تھا۔‘‘ علامہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ناظرین ! اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’الکبائر‘ ص ۱۴۶‘ گناہ نمبر ۳۱ میں بیان کیا ہے۔ لیکن کبیرہ گناہ کے بسبب کسی مسلمان کو اسلام سے خارج نہیں کہہ سکتے جب تک کہ وہ اپنے اس کیے گئے فعل کے صحیح ہونے یا برحق ہونے کا عقیدہ نہیں |