بغیر فتنے و فساد کے مثلاً احتجاجی سیاست وغیرہ سے ممکن ہو توایسا خروج اُمت مسلمہ پرفرض اورواجب ہے۔ کفر بواح کے مرتکب حکمرانوں کے خلاف خروج اگر کوئی مسلمان حکمران کفر بواح کا مرتکب ہو تو اس حکمران کے خلاف خروج جائز ہے۔اس خروج کے جواز میں عموماً یہ روایت بیان کی جاتی ہے: ((دعانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فبایعناہ فکان فیما أخذ علینا أن بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرھنا وعسرنا ویسرنا وأثرۃ علینا وأن لا ننازع الأمر أھلہ قال إلا أن تروا کفراً بواحاًعندکم من اللّٰہ فیہ برھان)) (69) ’’ ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا۔پس ہم نے آپ سے بیعت کی۔پس جن معاملات میں آپ نے ہم سے وعدہ لیا اور ہم نے آپ سے بیعت کی وہ یہ تھے کہ ہم ہر حال میں سمع و طاعت کریں گے چاہے ہمارے دل آمادہ ہوں یا نہ ہوں ‘چاہے ہم تنگی میں ہوں یا آسانی میں ‘ اور چاہے ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے۔اور ہم نے اس معاملے میں آپ سے بیعت کی کہ ہم اپنے امراء سے ان کی امارت میں جھگڑا نہیں کریں گے ۔آپ نے فرمایا: ہاں !سوائے اس کے کہ تم کفر صریح دیکھو کہ جس کے بارے میں تمہارے پاس اللہ کے ہاں کوئی روشن دلیل ہو۔‘‘ ہمارے خیال میں مرتد و ظالم حکمران کے خلاف خروج کے جواز میں اس روایت سے استدلال کرنادرست نہیں ہے کیونکہ اس روایت کے معنی و مفہوم میں علمائے سلف کے ہاں اختلاف ہے۔ہاں ‘ البتہ اس خروج کے جواز میں کچھ دوسرے دلائل نقل کیے جا سکتے ہیں ۔ اس روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر تمہارے پاس ’برہان‘ یعنی انتہائی روشن دلیل ہو تو تم کفر بواح کے مرتکب حکمران کے خلاف خروج کر سکتے ہو۔امام نووی رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ یہ روایت خروج کے مسئلے میں نہیں ہے۔اس روایت کے الفاظ میں خروج کا تذکرہ ہی نہیں ہے‘ زیادہ سے زیادہ بات سمع و طاعت کی ہے ۔اس روایت کا مفہوم امام |