ومن أنکر فقد سلم و لکن من رضی وتابع قالوا یا رسول اللّٰہ ألا نقاتلھم قال لا ماصلوا)) (67) ’’عنقریب تم پر کچھ حکمران ایسے مسلط کیے جائیں گے جن کی بعض باتوں کو تم پسند کرو گے اور ان کی بعض باتوں کاانکار کرو گے۔پس جس نے ان حکمرانوں کے منکرات کو دل سے ناپسند جانا تو وہ بری الذمہ ہے اور جس نے نہی عن المنکر باللسان کیا تووہ بھی بچا رہالیکن جو ان حکمرانوں کے منکرات پر راضی ہو گیا اور اس نے ان کی پیروی کی [تو ایسا شخص قابل وبال ہے]۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم ایسے حکمرانوں سے قتال نہ کریں ۔آپ نے فرمایا: نہیں ! جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں ۔‘‘ اسی طرح آپ کا ارشاد ہے کہ جب تک حکمران تمہارے مابین نماز پڑھتے رہیں تو ان کے خلاف خروج نہ کرو۔یعنی اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے خلاف خروج جائز ہے‘ واجب نہیں ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ((خیار ائمتکم تحبونھم ویحبونکم ویصلون علیکم وتصلون علیھم وشرار أئمتکم الذین تبغضونھم ویبغضونکم وتلعنونھم ویلعنونکم قیل یا رسول اللّٰہ أفلا ننابذھم بالسیف فقال لا ما أقاموا فیکم الصلاۃ)) (68) ’’ تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں کہ جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں ۔وہ تمہارے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور تم ان کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہو۔اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں کہ جن سے تم نفرت کرتے ہو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہوں ۔تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعن طعن کرتے ہوں ۔کہا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا ہم ان کو تلوار سے ہٹا نہ دیں ۔آپ نے فرمایا: نہیں ! جب تک کہ وہ تمہارے مابین نماز پڑھتے رہیں ۔‘‘ یہ واضح رہے کہ اس روایت میں ’اقامت ِصلوٰۃ‘ سے مراد حکمران کا اپنی نماز کو قائم کرنا‘ اس کی حفاظت کرنا اور اس کو ضائع نہ کرنا ہے جیسا کہ پہلی روایت اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر بے نماز حکمران کی معزولی پُر امن خروج اور |