Maktaba Wahhabi

212 - 264
سے نکال دیا ہے۔ مولانا فضل اللہ نے ’امام ڈھیرئی ‘ کو اپنا صدر مقام بنایااور وہاں دو کروڑ کی لاگت کے تخمینے سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔انہوں نے ’شاہین فورس‘ کے نام سے ایک عسکری جماعت بھی قائم کی کہ جس میں پانچ ہزار کے قریب مسلح افرادشامل تھے ۔ ۲۰۰۶ء میں ان افراد نے مبینہ طور پر بازاروں میں مسلح ہو کر گشت کرنا شروع کر دیا‘تاہم علاقے کی صورت حال اس وقت خراب ہوئی جب جولائی ۲۰۰۷ء میں لال مسجد پر حکومت کے آپریشن نے ان کو آگ بگولا کر دیا اور انہوں نے سکیورٹی فورسز پر حملے شروع کر دیے۔مولانا فضل اللہ نے سوات کی کئی ایک تحصیلوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔حکومت نے ان کے خلاف آپریشن میں فضائیہ او ر آرٹلری کو بھی استعمال کیا جس کی وجہ سے سینکڑوں شہری شہید ہوئے اور ہزاروں افراد نے دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کر دی۔ڈاکوؤں اور پرانی قبائلی دشمنیاں رکھنے والوں نے طالبان کے روپ میں لوگوں کو لوٹنا اور قتل کرنا شروع کر دیا۔علاقے میں طوائف الملوکی عام ہو گئی ۔ ۲۷ نومبر ۲۰۰۷ء کو طالبان اپنے مورچے خالی کرتے ہوئے نامعلوم مقامات کی طرف روپوش ہوگئے اور ۳ دسمبر کوافواج پاکستان نے امام ڈھیرئی کا کنٹرول سنبھال لیا۔بعد ازاں مولانا فضل اللہ بھی بیت اللہ محسود کی قیادت میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ میں شامل ہو گئے۔ لال مسجد کا جہاد:تاریخ و اسباب اسلام آباد میں جامعہ حفصہ و لال مسجد اور حکومت پاکستان کی انتظامیہ کے مابین تنازع کی رپورٹیں ۲۰ جنوری ۲۰۰۷ء کو حکومت پاکستان کی طرف سے مسجد امیر حمزہ اوراس سے ملحق مدرسے کو گرانے کے بعد میڈیا میں آنا شروع ہوئیں ۔ لال مسجد کے خطیب کے ایک مبینہ بیان کے مطابق سی ڈی اے‘ اسلام آباد کی طرف سے کچھ عرصے کے وقفے کے ساتھ سات سے زائد مساجد کو گرایا گیا۔علاوہ ازیں اسلام آباد انتظامیہ نے جامعہ مسجد ضیاء الحق ‘جامعہ مسجد شکرلال ‘جامعہ مسجد منگرال ٹاؤن‘جامعہ مسجد راول چوک ‘مسجد شہداء‘جامعہ مسجد مدنی ‘جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو بھی گرانے کے لیے نوٹس جاری کر
Flag Counter