Maktaba Wahhabi

213 - 264
دیے تھے ۔اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے مساجد و مدارس کوشہید کرنے کی اس مہم کی وجہ سے ملک بھر کے علماء ا ور مذہبی حلقوں میں اضطراب اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ۔علماء کے ایک اجلاس میں ’تحریک تحفظ مساجد ‘ کے قیام کا اعلان ہواجس میں جامعہ حفصہ کی طالبات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے عزم کا اظہارکیااورحکومت کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے جامعہ حفصہ سے ملحق دو بڑے کمروں پر مشتمل ایک چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا۔ ۲۷ جنوری کو لال مسجد کے مہتمم مولانا عبد العزیز صاحب کی طرف سے اخبارات میں ایک بیان شائع ہوا کہ جس میں حکومت سے چند مطالبات کیے گئے تھے۔ ان مطالبات میں گرائی جانے والی مساجد کی تعمیر نو‘ملک میں فحاشی کلچرکا خاتمہ ‘جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو بھیجے گئے حکومتی نوٹس کی واپسی اور پرویز مشرف کامساجد گرانے کے حوالے سے اللہ اور قوم سے معافی مانگنا شامل تھا۔مولانا نے مزید یہ بھی کہا کہ طالبات کا چلڈرن لائبریری پر اس وقت تک قبضہ برقرار رہے گا جب تک ملک کے اندر اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جاتا۔ ۳ فروری کے اخباری بیانات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے کریک ڈاؤن کر کے مدارس کے ۱۲۵ اساتذہ اور طلباء کو گرفتار کر لیا۔نیزجامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو اپنے تجاوزات ختم کرنے کے لیے ۲۴ گھنٹے کا نوٹس دے دیا۔ ۱۲ فروری کی اخباری اطلاعات کے مطابق لائبریری سے طالبات کا قبضہ ختم کروانے کے لیے علماء اور حکومت کے مابین مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے‘ جس پر انتظامیہ نے ویمن پولیس اور رینجرز طلب کر لی۔جامعہ حفصہ نے بھی فارغ التحصیل طالبات کو بلوا لیا۔ درمیان میں کچھ دن فریقین کی طرف سے خاموشی رہی لیکن۲۵ مارچ کوجامعہ حفصہ کی طالبات اور لال مسجد کے طلباء کی طرف سے آنٹی شمیم نامی ایک خاتون اور اس کی بہو اور بیٹی کے جامعہ حفصہ منتقلی کا ایک واقعہ ایسا ہواکہ جس نے ا س تنازع کو ایک دفعہ پھر بھڑکادیا ۔ ۲۹مارچ:مبینہ ذرائع کے مطابق پولیس نے جامعہ حفصہ کی دو معلمات ‘ان کے دو
Flag Counter