Maktaba Wahhabi

71 - 264
کی وجہ سے فسق و فجورتو کیاہے لیکن اس پر فاسق کے لفظ کا اطلاق درست نہیں ہے إلا یہ کہ وہ اس حرام کام کو کثرت سے کرے ۔‘‘ چوتھا نکتہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے عملی کفر کا یہ اصول بھی واضح کیا ہے کہ کتاب وسنت میں جن افعال کے مرتکبین کے اسلام یا ایمان کی نفی کی گئی ہے تو ہم بھی ان کے اسلام اور ایمان کی نفی کریں یعنی ہم انہیں مومن یا مسلم نہیں کہیں گے اور اس سے ہماری مراد ان کی تکفیر نہیں ہے بلکہ شرع کی اتباع میں ہم ایسا کریں گے اگرچہ ان اشخاص میں ایمان یا اسلام کی دوسری شاخیں موجود ہوں گی اور اس وجہ سے ان کو کافر حقیقی نہیں قرار دیا جائے گا ۔ امام صاحب فرماتے ہیں : ’’وھکذا الزانی والسارق والشارب والمنتھب لایسمی مؤمنا وإن کان معہ إیمان کما أنہ لایسمی کافرا وإن کان ما أتی بہ من خصال الکفر وشعبہ إذ المعاصی کلھا شعب من شعب الکفر کما أن الطاعات کلھا من شعب الإیمان۔أن سلب الإیمان من تارک الصلاۃ أولی من سلبہ عن مرتکب الکبیرۃ وسلب اسم الإسلام عنہ أولی من سلبہ عمن لم یسلم المسلمون من لسانہ ویدہ فلا یسمی تارک الصلاۃ مسلما ولامؤمنا وإن کان شعبۃ من شعب الإسلام والإیمان۔‘‘ (75) ’’ اسی طرح کا معاملہ زانی‘ چور‘ شرابی اور لٹیرے وغیرہ کا بھی ہے(یعنی ان پر ان ناموں کا اطلاق اسی وقت درست ہو گا جب ان سے یہ افعال کثرت سے صادر ہوں اور اگر کبھی کبھار ہوں تو پھر یہ تو کہا جائے گا کہ فلاں نے زنا کیا یا چوری کی یا ڈاکہ ڈالا یا شراب پی لیکن انہیں زانی‘ شرابی‘ ڈاکو یا چور نہیں کہا جائے گا) پس انہیں(یعنی چور‘ زانی‘ شرابی اور لٹیرے کو) نہ تو مومن کہا جائے گا(کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں ان کے مومن ہونے کی نفی ہے ) اگرچہ ان کے پاس ایمان موجود بھی ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں کافر کہاجائے گا اگرچہ جن افعال کا انہوں نے
Flag Counter