Maktaba Wahhabi

247 - 264
ہے (3)جیسا کہ پروسیجرل لاء(procedural law) کی مثال ہے۔ پس کتاب و سنت کے احکامات کے نفاذ اور اِجرا(application) میں مصلحت، سد الذرائع،عرف اور مقاصد شریعہ کو سامنے رکھنے کا معنی منہاج محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھنا ہے۔ ’شریعت محمدی‘ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب و سنت ہے اور کتاب و سنت کے نفاذ کا ’منہاج محمدی‘ صلی اللہ علیہ وسلم دو قسم پرہے : 1۔ اجمالی منہج: یہ دعوت و جہاد ہے ۔ 2۔ تفصیلی منہج: یہ مصلحت عامہ(public good and intrest)،سد الذرائع(prohibition of evasive legal devices)‘ عرف(comon practice and law)اور مقاصد شریعت(purposes of Sharia)وغیرہ کی ابحاث ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت کے نفاذ میں مصلحت‘ سدالذرائع‘ عرف اور مقاصد کا لحاظ رکھا ہے۔ اس کے دلائل سے اصول فقہ کی کتابوں میں قواعد عامہ یا اختلافی مصادر شریعت کی بحث ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ کیا سابقہ مناہج ِنفاذِشریعت منسوخ ہیں ؟ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سابقہ اقوام کی شریعتوں کی مانند ان کی طرف بھیجے ہوئے انبیاء کا منہاج بھی منسوخ ہے یا نہیں ؟ اس سوال کاجواب تفصیل چاہتا ہے۔ جس طرح سابقہ شرائع کے بنیادی احکامات مثلاً نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوۃ‘زنا نہ کرنا‘ چوری نہ کرنا‘قتل نہ کرنا اور سود نہ کھاناوغیرہ کی ایک بڑی تعداد ہماری شریعت میں باقی رکھی گئی اسی طرح ان سابقہ شریعتوں کے نفاذ کا بنیادی منہج یعنی دعوت بھی اس شریعت اسلامیہ میں بطور منہج باقی رکھا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سابقہ انبیاء کے نفاذ شریعت کے جن تفصیلی مناہج کا ذکر قرآن وسنت میں بطور خبر و تذکرہ بیان ہوا ہے تو یہ مناہج ہمارے حق میں ثابت ہیں یا نہیں ؟ ’’شرائع من قبلنا(‘‘(previous Shariaکے عنوان کے تحت اصولیین کے اختلاف کو بنیاد بناتے ہوئے اس بارے بنیادی طور پر دو موقف ہمارے سامنے آتے ہیں :
Flag Counter