1۔ جمہور حنفیہ‘ مالکیہ‘ بعض شافعیہ ‘ جمہور حنابلہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ شرائع من قبلنا کے وہ احکام جو ہماری شریعت میں بطور خبر نقل ہوئے ہیں ، ہمارے لیے حجت ہوں گے۔(4)لہٰذا اس موقف کے مطابق ان فقہاء کے نزدیک سابقہ تفصیلی مناہج بھی ہمارے لیے حجت ہوں گے۔ اس گروہ کے مطابق ان مناہج کاہماری شریعت میں مذکور ہو جاناہی اس بات کی دلیل ہے کہ شارع نے ان مناہج کو ہمارے حق میں برقرار رکھا ہے۔ 2۔ اشاعرہ ‘معتزلہ‘ شیعہ ‘ ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ اور شافعیہ کے ہاں راجح مسلک یہ ہے کہ سابقہ شریعتوں کے وہ احکام جو ہماری شریعت میں بطور خبر نقل ہوئے ہیں ‘ ہمارے لیے حجت نہیں ہیں ۔(5)پس اس قول کے مطابق یہ تفصیلی مناہج ہمارے حق میں حجت نہیں ہیں ۔ سابقہ انبیاء کے تفصیلی منہج کی ایک دلچسپ مثال پیش خدمت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے سامنے دعوت رکھی اور ان کی قوم کے آباء و اجداد کا معاملہ سامنے آیا تو انہوں نے کچھ یوں جواب دیا : ﴿اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَہَا عَاکِفُوْنَ() قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَآئَ نَا لَہَا عٰبِدِیْنَ() قَالَ لَقَدْ کُنْتُمْ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ﴾(6) ’’ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد اور اپنی قوم سے کہا: یہ کیسی مورتیاں ہیں جن کے سامنے تم جم کر بیٹھے ہو۔ انہوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: تم اور تمہارے باپ دادا صریح گمراہی میں ہو۔‘‘ اس کے برعکس جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے سامنے اپنی دعوت رکھی اور اس نے اپنے آباء واجداد کے بارے وضاحت چاہی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جواب کچھ یوں تھا: ﴿فَاْتِیٰہُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَلَا تُعَذِّبْہُمْ |