’نفاذ شریعت‘ اور’ نظام عدل کا قیام‘ کی اصطلاحات پر چند گزارشات ہم یہاں اس بات کی وضاحت بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ نفاذ شریعت کی نسبت ہم ’نظام عدل ‘کے قیام کی اصطلاح کو جامع سمجھتے ہیں جیسا کہ قر آن مجید نے سورۃ الحدید کی آیت ۲۵میں یہ اصطلاح استعمال کی ہے کیونکہ نفاذ شریعت کا عمومی مفہوم یہی سمجھا جاتا ہے کہ چند حدود کو نافذ کر دیا جائے بس یہی نفاذ شریعت ہے حالانکہ اسلام پسندوں کی نفاذ شریعت سے مراد صرف حدود کا نفاذ نہیں ہوتا بلکہ معاشرتی‘ معاشی‘ تعلیمی‘ عدالتی‘ سیاسی‘ ریاستی‘ صحافتی‘ قانونی اور آئینی نظام حتی کہ ہر شعبہ زندگی کی اسلامی اصول و ضوابط کی روشنی میں تبدیلی ہوتی ہے اور ان سب کے لیے ایک جامع لفظ قیام عدل ہے یعنی ہر شعبہ زندگی سے ظلم کا خاتمہ اسلامی نظام کے قیام کا مقصود ہے اور یہی علت جہاد کی اعلیٰ ترین صورت قتال کی بھی بیان کی گئی ہے۔(28) اسلام اپنا غلبہ چاہتا ہے‘ اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام ظلم کا خاتمہ چاہتا ہے کیونکہ اسلام ہی دین ِعدل ہے اور کسی شخص کے مسلمان ہونے کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ وہ صرف دین اسلام ہی کو دین ِعدل مانے ۔ پس جب ایک مسلمان اسلام کو دین ِعدل نہیں مانتا تو وہ نفاق میں مبتلا ہے اور اگر وہ اسلام کو دین ِعدل مانتا ہے تو عدل کے قیام اور ظلم کے خاتمے کے لیے جدوجہد شرعی حکم کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اخلاقی اور منطقی فرض بھی بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم کے خاتمے کے لیے مسلمان جماعت سے قتال اور گردن اڑانے جیسے عقلاً قبیح عمل کو بھی جائز قرار دیتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِنْمبَغَتْ اِحْدٰہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ﴾(29) ’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرواؤ۔ پس [اس صلح کے بعد ] اگر کوئی ایک جماعت دوسری جماعت پر ظلم کرے تو تم قتال کرو اس جماعت سے جو ظلم و زیادتی کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف |