Maktaba Wahhabi

256 - 264
’’مجھ سے پہلے کسی قوم میں اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے حواری اور ایسے ساتھی نہ ہوں جو اس کے طریقے کے مطابق چلتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد کچھ ناخلف قسم کے لوگ ان کے جانشین بنتے تھے جو ایسی باتیں کہتے تھے کہ جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے کہ جس پر عمل کرنے کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔پس جس نے ان[حکمرانوں ] کے ساتھ اپنے ہاتھ سے جہاد کیا وہ مؤمن ہے۔ اور جس نے ان کے ساتھ اپنی زبان سے جہاد کیا وہ مؤمن ہے۔ اور جس نے ان کے ساتھ اپنے دل سے جہاد کیاوہ مؤمن ہے۔ اور اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔‘‘ ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں : ((جَاھِدُوا الْمُشْرِکِیْنَ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ)) (26) ’’مشرکین کے ساتھ اپنی جانوں ‘اپنے مالوں اور اپنی زبانوں سے جہاد کرو۔‘‘ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو’صحیح‘ قرار دیا ہے۔(27) پس جہاد کا معنی صرف قتال نہیں ہے جیسا کہ یہ غلط فہمی بہت عام ہو چکی ہے۔ البتہ قتال ’جہاد‘ کی بلند ترین صورت ضرور ہے۔جہاد سے مراد اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کی جانے والی ہر قسم کی جدوجہد اور کوشش ہے اور ’جہاد‘ کے اس معنی پر قرآن و سنت کی بیسیوں نصوص اور ائمہ سلف کے سینکڑوں اقوال شاہد ہیں جنہیں ہم طوالت کے خوف سے یہاں بیان نہیں کرنا چاہتے۔ اسی طرح آپ کی مدنی زندگی میں صرف قتال نہیں ہے بلکہ میثاق مدینہ میں ازلی دشمنوں یعنی یہود کے ساتھ مدینہ کے اجتماعی دفاع کا معاہدہ بھی ہے ، صلح حدیبیہ کی طرح بدترین دشمنوں یعنی مشرکین مکہ سے صلح بھی ہے، خندق کے ذریعے صرف دفاع بھی ہے، بادشاہوں کے نام خطوط کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر دعوت کا مرحلہ بھی ہے وغیرہ۔ پس حدیث مذکورہ بالا کے مطابق ناخلف حکمرانوں کے خلاف جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس جہاد کا کم از کم درجہ ان حکمرانوں کے خلاف ِ اسلام اعمال و افعال سے دل سے نفرت کرنا ہے اور اعلی ترین درجہ انہیں مسند اقتدار سے ہٹانے کے لیے عملی کوشش اور جدوجہد کرنا ہے۔
Flag Counter