Maktaba Wahhabi

34 - 264
اگر وہ شریعت کو اس وضعی قانون سے بہتر سمجھتا تو شریعت اسلامیہ کو زائل نہ کرتا اور اس کی جگہ وضعی قانون نافذ نہ کرتا پس حاکم کا یہ فعل اللہ کے انکار کے مترادف ہے اور جہاں تک اس کا معاملہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہمارے قانون میں صرف نکاح اور وراثت کے معاملات شریعت کے مطابق طے ہوں گے تو وہ کتاب کے بعض حصے پر ایمان لاتا ہے اور بعض کا انکار کرتا ہے یعنی بعض میں شریعت کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور بعض میں شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کررہا ہے ۔ اور دین کے حصے بخرے نہیں کیے جا سکتے ۔ اسی طرح شریعت کے مطابق فیصلوں میں بھی یہ تقسیم درست نہیں ہے لہٰذا یہ ایک لازمی امر ہے کہ مکمل فیصلے شریعت کے مطابق کیے جائیں اور ایسا معاملہ نہ ہو کہ بعض فیصلے تو شریعت کے مطابق ہوں اور بعض میں شریعت کو چھوڑدیا جائے۔‘‘ بعض لوگوں کو شیخ صالح الفوزان حفظہ الله کے بارے یہ غلط فہمی ہوئی کہ شاید وہ بھی وضعی قوانین کے متعلق فیصلہ کرنے والوں کی مطلق تکفیر کے قائل ہیں حالانکہ یہ درست نہیں ۔ ان کا تفصیلی موقف یہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا ہے ۔ خالد العنبری کی کتاب پر ’اللجنۃ الدائمۃ‘ کی طرف سے جو فتویٰ آیا تھا اس میں شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے جو تاثرات تھے ان میں شیخ نے اسی تفصیل کو’’لأنہ یزیح تحکیم الشریعۃ الإسلامیۃ وینحیھا نھائیا‘‘کے الفاظ سے اجمالاً بیان کیا ہے ۔(39) پانچویں توجیہہ بعض سلفی اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ ’قضیہ معینہ‘ اور’تشریع عام‘ میں فرق کرتے ہوئے، مجرد معاصر مسلمان ممالک کے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کی وجہ سے کسی حکمران یا جج کو ملت اسلامیہ سے خارج قرار دیتے ہیں تو ان کا یہ قول عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے لہٰذا ناقابل قبول ہے۔ تکفیر کے قائل شارحین کا کہنا یہ ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے قول کے مطابق معاصر حکمران یا جج حضرات جس آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اسے ایک مصدر اور منبع کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنے فیصلوں میں باربار اس آئین یا قانون کی طرف رجوع کرتے ہیں لہٰذا قرون اولیٰ میں کسی قاضی کا کسی خاص واقعہ میں
Flag Counter