Maktaba Wahhabi

251 - 264
کی اعلی تر شخصیات دعوت وتبلیغ اور صبر و تحمل ہی کے ماحول میں پروان چڑھی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ذاتی زندگی میں نفاذ شریعت کے حوالے سے تبلیغی جماعتوں نے جو رجال کار پیدا کیے ہیں ‘ اگرچہ ان کی تعداد تبلیغی جماعتوں کی مجموعی تعداد کی نسبت بہت کم ہی کیوں نہ ہو‘ امر واقعہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ایسی شخصیات نہ تو تصوف کے حلقے پیش کر سکے ہیں اور نہ ہی بیعت ارشاد کے جملہ سلاسل ۔ اس کے برعکس اجتماعی سطح پرتبدیلی یا انقلاب یا نظام عدل کے قیام یا نفاذ شریعت کے لیے جہاد سے بہتر کوئی منہج موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ میں نظام عدل کے قیام کے لیے اسی منہج کو اختیار کیا گیا۔ فرد پر نفاذ شریعت کا منہج دعوت ہے دعوت کا پہلا مرحلہ تبلیغ(یعنی پیغام پہنچانا)ہے اور یہ کم از کم درجہ ہے جو ہر مسلمان کے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ اس کے پاس کتاب و سنت کا جو علم بھی محفوظ ہے‘ وہ اسے دوسروں تک پہنچائے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَتَہٗ﴾ ) (10) ’’اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پہنچا دیں جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیاہے۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اپنی رسالت کا حق ادا نہ کیا۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ تبلیغ کا حکم تو ہے لیکن کس شے کی تبلیغ مطلوب ہے ، یہ بھی واضح کر دیاہے اور وہ﴿ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ﴾یعنی قرآن و سنت کی تبلیغ کا حکم ہے نہ کہ قصے کہانیوں کی ‘ جیسا کہ دیہاتوں میں جمعہ کے خطبات میں واعظین کا عمومی طرزعمل دیکھنے میں آیا ہے کہ قصے کہانیاں ‘ بزرگوں اور اولیاء اللہ کے واقعات تو خوب ہوتے ہیں لیکن کتاب وسنت کا نام بھی موجود نہیں ہوتا اور اگر بھولے سے سنت میں سے کچھ بیان کیا بھی جاتا ہے تو وہ بھی فضائل اور مناقب سے متعلقہ موضوع اور من گھڑت روایات کہ جن کا بیان کرنا ہی شرعاً حرام ہے۔
Flag Counter