Maktaba Wahhabi

252 - 264
رسالت کی تبلیغ کی یہ ذمہ داری جو آپ کے کاندھوں پر تھی ، حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے وہ اپنی امت کو سونپ دی۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ((ألا ھل بلغت قالوا نعم قال أللھم اشھد فلیبلغ الشاھد الغائب فرب مبلغ أوعی من سامع)) *(11) ’’ [آپ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر تقریباً ایک لاکھ ۲۴ ہزار صحابہ ] سے سوال کیا]کیا میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! آپ نے کہا: اے اللہ ! گواہ رہنا۔ پس جو تم میں سے حاضر ہے وہ اس کو یہ پیغام پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں ہے۔ پس بہت سے ایسے لوگ کہ جنہیں یہ پیغام پہنچایا جائے گا وہ [اس پیغام کو یہاں پر] سننے والوں سے زیادہ محفوظ رکھنے والے ہوں گے۔‘‘ پس تبلیغ ہر مسلمان کا فرض ہے اور اس کا یہ فرض اس وقت ادا ہو گا جب وہ کتاب وسنت کی تبلیغ کرے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جس تبلیغ پر گواہی لی یا جس کے کرنے کا حکم دیا ‘ وہ کتاب وسنت ہی کی تبلیغ ہے۔ تبلیغ کے بعد دعوت کا مرحلہ ہے اور دعوت ہی کی اصطلاح کے ذریعے دعوت کے منہج کو بہت تفصیل سے قرآن میں نکھارا گیا ہے۔ ہم یہاں اس ذیل میں صرف دو تین نکات کی وضاحت کر دیتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ +(12) ’’ اور اس سے بڑھ کر بہتر ین بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف پکارے اور نیک عمل کرے اور کہے : میں تو مسلمانوں میں سے ہوں ۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ایک تو یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کی مطلوب دعوت کون سی ہے!یعنی دعوت کس کی طرف دی جائے گی؟ قرآن کے بیان کے مطابق مطلوب دعوت‘ اللہ کی بندگی کی دعوت ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ داعی کو خود بھی عامل ہونا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے کہ داعی کا تشخص ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے سامنے آئے نہ کہ کسی خاص مسلک کے نمائندے یا کسی جماعت کے رکن کی حیثیت سے ۔
Flag Counter