Maktaba Wahhabi

54 - 264
تحریکی جذبے کے حامل افراد پر مشتمل ہے اور اگر یہ ادارہ اپنی صلاحیتیں مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کے مسئلے ہی کے لیے وقف کرنے کی بجائے کسی قدر مسلمان معاشروں کی اصلاح اور تعمیری کام پر لگائے تو اس معاشرے میں ایک قابل قدر فکری تبدیلی برپا کر سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اس کام کے لیے وقف کرے کہ جس کے لیے اس نے انبیاء کو مبعوث کیا ہے۔ آمین! دوسری طرف ’اصلی اہل سنت‘ کی ویب سائیٹ کا ایک پہلو تو تعریفی ہے کہ تکفیر اور توحید حاکمیت کے مسئلہ میں وہ سلفی علماء ہی کا موقف پیش کر رہے ہیں لیکن اس ویب سائیٹ کے ذمہ داران‘ علماء کے ان فتاویٰ کو بعض اوقات کسی دینی شخصیت ہی کو مسخ کر دینے کی صورت میں پیش کرتے ہیں حالانکہ کبار سلفی علماء کا مقصود اس دینی شخصیت کو مسخ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے افکار و نظریات سے تحذیر مطلوب ہوتی ہے۔ اختلاف یا نقدتو کسی پر بھی ہو سکتا ہے‘ نبی کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں ہے لیکن نقد میں انصاف کا دامن تھامے رکھنے والے حضرات بہت ہی کم ہوتے ہیں ۔ جس طرح ایمان کی شاخیں ہیں ‘ اسی طرح کفر اور معصیت کی بھی شاخیں ہیں اور ایک شخص میں ’من وجہ کفر‘ اور’ من وجہ ایمان‘ یا’ من وجہ خیر‘ او ر’ من وجہ شر‘کا جمع ہونا ممکن ہے۔ اس صورت میں انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی دینی شخصیت میں خیر کے پہلو کی تعریف کرے اور شر کے پہلو پر نقد کرے۔ تاتاری قانون ’الیاسق‘ سے معاصر حکمرانوں کی تکفیر پر استدلال ہم یہاں یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بعض حضرات نے تاتاریوں کے قانون ’ الیاسق‘ کے حوالے سے امام ابن کثیر اور امام ابن تیمیہ ; کے اقوال نقل کیے ہیں ۔ ان دونوں ائمہ نے ’الیاسق‘ نامی تاتاری قانون کے مطابق فیصلہ کرنے والے اسلام کے دعویدار تاتاریوں کو کافر قرار دیا ہے۔ بعض سلفی اہل علم نے اس کا جواب یہ دیاہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابن کثیر اورامام ابن تیمیہ ; نے ’الیاسق‘ نامی مجموعہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والے تاتاریوں کو کافر قرار دیا ہے لیکن ان کی تکفیر کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے مجموعہ قوانین کو شرعی
Flag Counter