دعوت دے رہا ہے۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ درحقیقت ادارہ ’ایقاظ‘ کی تقلید بنتی ہے نہ کہ سلفی علماء کی۔ معاصر سعودی علماء ہی شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے حقیقی جانشین ہیں ۔ اور ان کبار علماء مثلاً شیخ بن باز‘ شیخ صالح العثیمین;‘ شیخ صالح الفوزان‘ علامہ البانی‘ شیخ عبدالعزیزبن عبد اللہ آل الشیخ‘ شیخ عبد العزیز الراجحی‘ شیخ عبد المحسن العبیکان حفظہم اللہ ا ور ہئیہ کبار العلماء میں سے کوئی بھی عالم دین معاصرمسلمان حکمرانوں کی تکفیر نہیں کرتا ہے۔ دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ سعودی علماء تو ’تارک صلاۃ‘ کو بھی حقیقی کافر شمار کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں توحید الوہیت کی بنیاد پر عمومی تکفیر کا جس قدر زور ان علماء کے فتاوی میں نظر آتا ہے وہ توحید حاکمیت کی نسبت سے بہت ہی کم ہے۔ لیکن ادارہ ’ایقاظ‘ سعودی علماء کے توحید الوہیت یا تارک صلاۃ کے بارے تکفیر کے صریح اور دوٹوک موقف کی بنیاد پر پاکستان میں تکفیر کاقائل نہیں ہے۔ اگر تو تقلید کا یہ معنی ہے کہ مقلد نے اپنی مرضی کے علماء[مثلاً شیخ بن باز‘ شیخ صالح العثیمین اور علامہ البانی کی بجائے شیخ محمدبن ابراہیم رحمہم اللہ کی] اور اپنی مرضی کے فتاویٰ [مثلاً تارک صلاۃ کی بجائے حکمرانوں کی تکفیر کے مسئلہ میں ان علماء ]کی تقلید کرنی ہے تو یہ اجتہاد کی ایک قسم ہے نہ کہ تقلید۔ اور ایسے علماء کو فقہاء کی اصطلاح میں ’ اصحاب ترجیح‘ کہتے ہیں اور عموماً علماء ’اصحاب ترجیح‘ کو مجتہدین مذہب میں ہی شمار کرتے ہیں ۔ اگر تو ادارہ ’ایقاظ‘ پاکستان کی جماعت اہل الحدیث کی طرح عدم تقلید اور اجتہاد کا دعویدار ہوتا تو ہمیں یہ اعتراض کرنے کا کوئی حق نہ تھا لیکن ایک طرف جب وہ کبار علماء کی تقلید کے دعویدار ہیں اور پاکستانی علماء کو بھی کبار علماء کی تقلید کی دعوت دیتے ہیں تو پھر ان پر یہ اعتراض لازم طور پر وارد آتا ہے کہ وہ خود جب کبار علماء کے مقلد نہیں ہیں تو دوسروں کو اس کی دعوت کیسے دے رہے ہیں ؟ (62)مسئلے کا سادہ سا حل یہ ہے کہ اگرادارہ ایقاظ واقعتا کبار علماء کی تقلید کا قائل ہے تو کبار علماء مثلاً ہیئۃ کبار العلماء وغیرہ کی خدمت میں تکفیر سے متعلق اپنا فکر تفصیلی طور پر پیش کر کے اس کے بارے تائیدی فتویٰ حاصل کرے اور پھر وہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ کبار علماء کا مقلد ہے تو یہ دعویٰ فی الواقع درست ہو گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ادارہ ایقاظ سلیم الفطرت‘فاضل‘ قابل ‘مخلص ‘ دیندار اور |