Maktaba Wahhabi

52 - 264
ادارہ ایقاظ کی تکفیر کی بحث میں بیان کردہ نکتہ نمبر ۲ کے بارے ہم یہ کہیں گے کہ تکفیر مطلق اور تکفیر معین میں فرق کا یہ پہلو ایک قابل تعریف امرہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پہلو کے اجاگر کرنے سے اصول تکفیر کا غلط استعمال بہت حد تک کنٹرول میں آ جاتا ہے۔ تیسرے نکتے کے بارے ہم مفصل بحث سابقہ صفحات میں کر چکے ہیں ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ اپنی اس رائے اور فتویٰ سے رجوع کر چکے ہیں کہ بغیرعقیدے کے مجرد غیر شرعی وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے سے ہی کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی شیخ کے فتویٰ کے بارے سلفی علماء کے چار رجحانات ہم نقل کر چکے ہیں ۔ چوتھے نکتے کے بارے ہمارا کہنا یہ ہے کہ ادارہ’ ایقاظ‘ کا اگرچہ دعویٰ تو یہی ہے کہ وہ سعودی علماء کے مقلد ہیں لیکن ان کی ویب سائیٹ کا اگر ’اصلی اہل سنت‘ کی ویب سائیٹ سے تقابل کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے ۔ ’اصلی اہل سنت‘ کی ویب سائیٹ پر شاید ہی کوئی کتاب ‘ رسالہ‘ مضمون یا فتویٰ آپ دیکھیں گے کہ جس میں دو چار لفظ کا اضافہ بھی مترجم نے اپنی طرف سے کیا ہویعنی یہ ویب سائیٹ حقیقی معنی میں سعودی علماء کے کام کو پیش کر رہی ہے اور اگر مترجم اپنی طرف سے کوئی بات کرتا بھی ہے تو اسے حاشیہ میں بیان کرتا ہے‘ اور یہی در حقیقت علماء کی ترجمانی کہلاتا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف ادارہ’ ایقاظ‘ کی ویب سائیٹ پر توحید حاکمیت یا مسئلہ تکفیر سے متعلق شاذ ونادرہی کوئی ایسا مضمون ہوگا جس میں سعودی علماء کے کثرت سے حوالہ جات موجود ہوں ۔ اگر کسی مضمون میں کچھ کبار سعودی علماء کے اِکا دُکا حوالہ جات موجود بھی ہوں تو وہ بھی عموماً ان علماء کے ہوتے ہیں کہ جن کے فتاویٰ موجودہ حالات اور ان حکمرانوں کے بارے نہیں ہیں کہ جن کی خارج میں تکفیر کی جارہی ہے۔ یہ ادارہ موجودہ خاص حالات میں معاصرکبار سعودی علماء کی متعین رہنمائی کو چھوڑ کر‘ کہ جسے ادارہ ’اصلی اہل سنت‘ والے بھی پیش کر رہے ہیں ‘گزشتہ علماء [مثلاً شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ]کی عمومی نصوص کو پکڑ لیتا ہے اور پھر ان نصوص کی تشریح اور ان کا اطلاق اپنے فہم کی روشنی میں کرتا ہے اور اسے سلفی موقف قرار دے کر اس کی تقلید کی ہر کسی کو
Flag Counter