Maktaba Wahhabi

208 - 264
اور اس کی جگہ معروف قائم ہو جائے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ منکر کم ہو جائے اگرچہ مکمل ختم نہ ہو۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ وہ منکر تو ختم ہو جائے لیکن اس کی جگہ ایک ویسا ہی منکر اور آ جائے اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ اس منکر کے خاتمے کے بعد اس سے بھی بڑا اور بدترین منکر آ جائے ۔پس پہلے دو درجے مشروع ہیں جبکہ تیسرا درجہ اجتہاد کا میدان ہے اور چو تھا درجہ حرام ہے ۔‘‘ جہاں تک دفاعی جہاد کا معاملہ ہے تو وہ تو جب تک دفاع کی استطاعت اور طاقت ہے‘ ہو گا‘ چاہے فریقین کی نسبت کچھ بھی ہو کیونکہ یہی فطری امر ہے کہ ہر شخص اپنے جان ومال کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ اور اگر دفاع کی قدرت اور اہلیت باقی نہ رہے تو پھر صبر محض ہے ۔ شمالی و جنوبی وزیرستان کا جہاد: تاریخ و اسباب وزیرستان پاکستان کے شمال مغرب میں ایک پہاڑی علاقہ ہے کہ جس کی سرحد افغانستان سے بھی ملتی ہے ۔وزیرستان جغرافیائی اعتبار سے دو حصوں ’شمالی وزیرستان‘اور ’جنوبی وزیرستان‘ میں تقسیم ہے۔۱۹۹۸ء کے اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان کی آبادی تقریباًتین لاکھ اکسٹھ ہزار اور جنوبی وزیرستان کی آبادی چار لاکھ انتیس ہزار تھی۔شمالی وزیرستان کا صدر مقام’ میران شاہ ‘ہے جبکہ جنوبی وزیرستان کا دار الخلافہ ’وانا‘ ہے۔ وزیرستان کے مقامی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جہاد افغانستان میں شریک رہی۔ نومبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بہت سے غیر ملکی اورمقامی مجاہدین نے وزیرستان کا رخ کیااور یہاں پناہ لی۔امریکہ نے ان مجاہدین کے حوالے سے حکومت پاکستان پر دباؤڈالا۔حکومت پاکستان نے جولائی ۲۰۰۲ء میں مقامی قبائلیوں کی رضامندی سے علاقے کی ترقی کے بہانے ’وادی تیرہ ‘اور ’خیبر ایجنسی‘ میں اپنی فوجیں اتاریں ۔ اور کچھ ہی عرصہ بعدحکومت نے اچانک ہی جنوبی وزیرستان پر ہلا بول دیا۔مقامی لوگوں نے حکومت پاکستان کے اس اقدام کو اپنی آزادی کے منافی سمجھا اور پاکستانی افواج و مقامی قبائلیوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔مارچ ۲۰۰۴ء میں
Flag Counter