اللہ تعالیٰ ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘ ان آیات کے مطابق کسی اسلامی ریاست پر اقدامی قتال اس وقت فرض ہوتا ہے جبکہ اس کی قوت ‘ دشمن کی قوت سے نصف ہو۔ امام قرطبیh اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں : ’’قلت: وحدیث ابن عباس یدل علی أن ذلک فرض۔ثم لما شق علیھم حط الفرض إلی ثبوت الواحد للاثنین‘ فخف عنھم وکتب علیھم ألا یفر مائۃ من مائتین‘ فھو علی ھذا القول تخفیف لا نسخ وھذا حسن۔‘‘ (3) ’’ میں یہ کہتا ہوں :حضرت عبد اللہ بن عباسt کی حدیث اس طرف رہنمائی کر رہی ہے کہ پہلا حکم مسلمانوں پر فرض تھا‘ پھر جب اس حکم کی فرضیت ان کو بھاری محسوس ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرضیت میں تخفیف کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا کہ اگر ایک دو کی نسبت ہو تو پھر اس کی فرضیت باقی ہے[اور اس سے کم ہو تو ساقط ہے]۔پس اللہ تعالیٰ نے ان سے تخفیف کر دی اور ان پر یہ فرض کر دیا کہ دو سو کے مقابلے میں ایک سو میدان جنگ سے نہ بھاگیں ۔اس قول کے مطابق یہ حکم تخفیف کا ہے نہ کہ نسخ کا‘ اور یہ قول بہترین ہے۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قوت میں تعداد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی لہٰذا اس کا تذکرہ آیت میں کر دیا گیاہے جبکہ آج کل قوت میں صرف تعداد داخل نہیں ہے۔پس اگر کسی مسلمان ریاست کے پاس دشمن کے مقابلے میں نصف قوت موجود ہو تو اس پر اقدامی جہاد فرض ہو گااور اگر نصف سے کم قوت ہو تو پھر جہاد کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں یعنی یہ مستحب بھی ہو سکتا ہے او ر حرام بھی ۔امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’إنکار المنکر أربع درجات الأولی أن یزول ویخلفہ ضدہ الثانیۃ أن یقل وإن لم یزل بجملتہ الثالثۃ أن یخلفہ ما ھو مثلہ الرابعۃ أن یخلفہ ما ھو شر منہ فالدرجتان الأولتان مشروعتان والثالثۃ موضع اجتہاد والرابعۃ محرمۃ۔‘‘ (4) ’’انکار منکر کے چار درجات ہیں ۔ پہلا درجہ وہ ہے کہ جس سے منکر ختم ہو جائے |